
جنگ میں سب سے زیادہ جھوٹ بِکتا ہے……..حیدر جاوید سید
ان نامرادوں پر غصہ تو بہت آیا پھر فقیر راحموں نے تسلی دی کہ واپسی پر اگر بھارتی نیوی والے لاہور میں دکھے تو ان سے ’’نبڑ‘‘ لیں گے
پاک بھارت کشیدگی بالخصوص بھارتی میزائل گردی آپریشن ’’سندور‘‘ پاکستان کی جوابی کارروائیوں خصوصاً ’’آپریشن بنیان المرصوص‘‘ کے دنوں بلکہ ابتدائی سیز فائر تک کے دنوں میں، میں ملتان میں مقیم تھا۔ امڑی حضور کے شہر میں اس بارحاضری اپنی بھانجی سیدہ رباب زیدی کی رخصتی (شادی) کی تقریبات میں شرکت کے لئے تھی۔
پچھلے برس جنوری میں خانوادہ سیدہ عاشو بی بی وعظ والیؒ میں بھیا ابو کہلانے والے ہمارے بڑے بھائی دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے ان کی زندگی میں بے فکری تھی خاندان کی زیادہ تر تقریبات یوں کہہ لیجئے غمی خوشی کے مواقع پر بھیا ابو جی تشریف لے جاتے تھے ان کی موجودگی مجھ جیسے نالائق کو اکثر سفر کی صعوبتوں سے بچالیتی۔
گو کبھی کبھی شرکت ناگزیر بھی ہوجاتی خصوصاً بھیا ابو جی کے اس حکم پر کہ ’’باوے کوئی بہانہ نہیں چلے گا مقررہ وقت اور دن پر تمہیں موجود ہونا چا ہیے یہ میرا حکم ہے‘‘۔ سعادت مند بھائی کے سارے بہانے مصروفیات اور کام کاج (قلم مزدوری) دھرے کے دھرے رہ جاتے۔
بھیا ابو جی کے سانحہ ارتحال کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اب کوئی بہانہ ہے نہ مصروفیت کا رونا۔ جہاں جانا ہے وہاں لازمی جانا پچھلے پندرہ سولہ مہینوں کے دوان فقط ایک بار کوتاہی ہوئی جب میں اپنی ماموں زاد بہن کے سانحہ ارتحال پر ان کے گاوں نہیں پہنچ سکا مجھے اس خبر غم کی اطلاع قدرے تاخیر سے ملی وہ بھی تب جب چھوٹے بھائی سید قاسم علی بخاری نے فون پر اس سانحہ ارتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بھانجے سے (ماموں زاد بہن کے صاحبزادے) بات کروائی تب میں نے ان سے تعزیت کی۔
پندرہ سولہ ماہ میں اس کے علاوہ کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی اسی عرصے میں ملتان اور مظفر آباد آزاد کشمیر کے نصف درجن کے قریب چکر لگے۔ صحت سفر کے مانع تھی اور ہے لیکن اب سفر واجب ہوئے ہیں ، معاف کیجئے گا بات سے بات نکلی اور اپنے حالات کا ذکر چھڑ گیا۔
میں جنگ کے دنوں میں لاہور سے دور ملتان میں تھا۔ میں ابھی ملتان کے راستے میں ہی تھا جب اطلاع ملی کہ بھارتی نیوی لاہور کی بندرگاہ تباہ کرنے کے بعد شہر میں داخل ہوگئی ہے۔
ان نامرادوں پر غصہ تو بہت آیا پھر فقیر راحموں نے تسلی دی کہ واپسی پر اگر بھارتی نیوی والے لاہور میں دکھے تو ان سے ’’نبڑ‘‘ لیں گے۔
غصہ مجھے اپنے پنجابی اور لاہوری دوستوں پر بھی بہت آیا وہ اس لئے کہ میں اپریل 1985ء میں لاہور آیا تھا۔ 1994ء میں لاہور سے پشاور چلا گیا (ان برسوں میں روزنامہ مشرق میں قلم مزدوری کرتا تھا جب لاہور سے پشاور تبالہ ہوگیا) لاہور مستقل واپسی سال 2015ء میں ہوئی مگر درمیانی برسوں میں آنا جانا لگا رہا اور دوستوں سے رابطہ بھی رہا افسوس کہ 40 برسوں کے اس تعلق و روابط میں لاہوری دوستوں نے لاہور کی بندرگاہ ہم سے چھپائے رکھی
نہ چھپاتے تو ہم نے کون سا اٹھاکر اسے سرائیکی وسیب لے جانا تھا۔ سرائیکی وسیب سے یاد آیا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے ملتان کی بندرگاہ تباہ کرنے کی بھی خبر دی تھی۔
میں جماندرو ملتانی ہوں ملتان ہی میں میرا کُل جہان ہے۔ حالیہ مختصر جنگ میں بھارتی ’’سورمائوں‘‘ نے جو ملتان کی بندرگاہ تباہ کی وہ مجھ ملتانی سے بھی پوشیدہ تھی۔ اپنے ملتانی دوستوں سے جائے وقوعہ ملتان کی تباہ ہونے والی بندرگاہ کے حدود اربع بارے دریافت کرتا پھرا لیکن وہ بھی لاعلم ہی تھے انہیں بھی ملتانی بندرگاہ کی تباہی کی اطلاع بھارتی ذرائع ابلاغ سے ہی ملی تھی
جیسے چیچہ وطنی والے ایئرپورٹ کی تباہی کی خبر ملی۔ چیچہ وطنی میں میرے چند پیارے ہیں بھائی جان منیر ابن رزمی، اسد عباس ملک اور علمدار حسین ان تینوں پیاروں نے بھی کبھی چیچہ وطنی ایئرپورٹ بارے آگاہ نہیں کیا میں بلاوجہ فیصل موورز وغیرہ میں دھکے کھاتا اور طارق جمیل کی تقریریں سنتا رہا۔
ملتان کی تباہ شدہ بندرگاہ کے مقام کی تلاش میں ہم (میں اور کامریڈ دلاور عباس صدیقی) نے خوب دھکے کھائے پھر ایک ساعت میں مجھے یاد آیا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی نیل کوٹ کے مقام پر بندرگاہ ہوا کرتی تھی۔ یہ تاریخی شہادت پانچ سے سات ہزار سال پرانی ہے اس زمانے کی جب دریا ہی مال برداری اور آمدورفت کے ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ تب میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’اوئے بھارتی جھوٹو تہاکوں گھنے مولا، پنج ست ہزار سال پرانی بندرگاہ مئی 2025ء اچ تباہ کرڈتی وے ‘‘۔
لاہور والی تباہ شدہ بندرگاہ کے مقام کا پتہ نہیں چل پایا مجھے لاہور واپس آئے آج چوتھا دن ہے ملک قمر عباس اعوان اور دانشور بلال حسن بھٹی سے کئی بار اس بندرگاہ بارے پوچھ چکا ہوں وہ بھی لاعلم ہیں۔
جانتے صرف یہ ہیں کہ بھارتی نیوی نے لاہور کی بندرگاہ تباہ کر کے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن وہ بھارتی نیوی اہلکار بھی اب گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں
ہمارے استادِ محترم مرحوم سید عالی رضوی فرمایا کرتے تھے
’’سب سے زیادہ جھوٹ جنگ کے دنوں میں فروخت ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جھوٹ دیندار بولتے ہیں‘‘۔
چھیاسٹھ برس کے سفر حیات میں دونوں کا خوب مشاہدہ ہوا۔ پرانے قصوں کو چھوڑدیں حالیہ جنگ میں جھوٹ بھارتی ذرائع ابلاغ نے بیچا یا پھر ہمارے یہاں کی دو اسلامی جماعتوں کے سربراہوں نے یہ جھوٹ فروخت کیا کہ ’’پاکستان نے بھارت کو نہیں اصل میں اسرائیل کو شکست دی ہے اسرائیل کی یہ شکست غزہ کا بدلہ ہے‘‘۔
اللہ جانتا ہے چھوٹا موٹا مرچ مصالحوں کے بغیر جھوٹ ہم بھی بول لیتے ہیں لیکن اس طرح کا پکا پیٹھا جھوٹ دینداروں کو ہی زیب دیتا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے دوران جنگ آرمی چیف (ہمارے) بارے دو خبریں دیں۔ ایک یہ کہ جنرل عاصم منیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے دوسری یہ کہ جنرل عاصم منیر اپنے خاندان سمیت ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ ایک بھارتی ٹی وی چینل نے خبر دی کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف خندق میں جاچھپے ہیں۔
چار پانچ روزہ اس جنگ میں بھارتی ذرائع ابلاغ نصف سے زیادہ پاکستان تباہ کرچکا تھا۔ اب تو ان بھارتی چینلوں پر سوال پوچھا جا رہا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کیوں کی؟ بھارتی عوام بھی پوچھ رہے ہیں کہ وہ نصف سے زیادہ پاکستان جو تباہ ہوگیا تھاوہ کہاں گیا؟
امرتسر والے کہہ رہے ہیں لاہور کی بندرگاہ تباہ ہونے کے بعد سمندر کے جس پانی نے امرتسر آنا تھا وہ کدھر گیا؟ سوال اور بھی پوچھے جارہے ہیں مگر ’’باجپاٹولہ‘‘ پتہ نہیں کس کونے کھدرے میں جاچھپا ہے۔
56 انچ کی چھاتی والے نریندر مودی کی حالت دیدنی ہے جنگ بندی کے حوالے سے اس کے دعوئوں پر امریکی صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کھلا حملہ کردیا کہ جنگ بندی کے لئے پاکستان نے نہیں بھارت نے کہا تھا لیکن ڈھیٹ مودی اور جے شنکر اب بھی جھوٹ پیتے اوڑھتے اچھالتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
پیارے قارئین!جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 12 مئی تک تھا اب دوسرا مرحلہ 18 مئی تک ہے۔ 18 مئی بروز اتوار کے بعد کیا ہوگا ابھی پتہ نہیں جو پتہ ہے وہ یہ کہ نریندر مودی کے غبارے میں سے ہوا نکل چکی ہے۔ آپریشن سندور کے اعلان کے وقت جس تکبر اور نخوت کا اس نے مظاہرہ کیا وہ اب ہوا ہوچکا امید تو نہیں کہ مودی اور "باجپاٹولہ” مزید کوئی حماقت کرے گا پھر بھی اگر شوق چرائے تو ست بسم اللہ۔
ویسے ابدی سچائی یہ ہے کہ جنگ مسائل پیدا کرتی ہے مسئلہ کا حل نہیں نکالتی۔