پاکستان

پاکستان اور انڈیا کا مئی کے آخر تک فوج کو سرحدوں سے واپس لے جانے پر اتفاق

معروف سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ’’یہ معاہدہ وقتی طور پر ہی سہی، لیکن دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی ایک مثبت علامت ہے

(سید عاطف ندیم-پاکستان): جنوبی ایشیا میں کشیدگی کے ماحول میں کمی کی امید اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان اور بھارت نے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے مئی کے آخر تک اپنی افواج کو سرحدی علاقوں سے واپس بلانے پر اتفاق کر لیا۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری و سفارتی حکام کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور مکمل ہونے کے بعد یہ معاہدہ سامنے آیا ہے، جسے علاقائی امن و استحکام کے لیے ایک "مثبت اور خوش آئند قدم” قرار دیا جا رہا ہے۔
بیک ڈور سفارتکاری رنگ لائی
ذرائع کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں عمان اور متحدہ عرب امارات کی ثالثی سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان پسِ پردہ مذاکرات جاری تھے، جن کا مقصد سرحدی تناؤ کو کم کرنا اور ممکنہ فوجی تصادم سے بچاؤ تھا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ سرحدی علاقوں خصوصاً لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر تعینات اضافی افواج کو مرحلہ وار واپس بلایا جائے گا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ فیصلہ خطے میں امن کو فروغ دینے کی ہماری خواہش کا مظہر ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے خطے میں پرامن بقائے باہمی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا حامی رہا ہے۔‘‘
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس معاہدے کو "ایک عملی قدم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تناؤ کم کرنے کے لیے فوجی ہٹاؤ ضروری ہے، تاکہ معمول کی سفارتی سطح پر بات چیت کو موقع دیا جا سکے۔‘‘
فوجی ہٹاؤ کا نظام الاوقات
معاہدے کے تحت:
25 مئی تک لائن آف کنٹرول اور انٹرنیشنل بارڈر پر تعینات غیر ضروری افواج کی واپسی کا آغاز ہوگا۔
31 مئی تک دونوں جانب سے فرنٹ لائن پر موجود توپ خانہ، بکتر بند گاڑیاں، اور دیگر جنگی ساز و سامان کو پچھلی پوزیشنز پر منتقل کر دیا جائے گا۔
جون کے آغاز میں ایک مشترکہ نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کیا جائے گا تاکہ اس عمل میں شفافیت برقرار رکھی جا سکے۔
کشیدگی میں کمی کی ضرورت
گزشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، خاص طور پر جب لائن آف کنٹرول کے مختلف سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان واقعات میں دونوں جانب سویلین اور فوجی جانی نقصان ہوا، جس پر عالمی برادری نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اقوام متحدہ، امریکا، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی قسم کی فوجی محاذ آرائی سے گریز کریں۔
ماہرین کا ردعمل
علاقائی امور کے ماہرین نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ معروف سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ’’یہ معاہدہ وقتی طور پر ہی سہی، لیکن دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی ایک مثبت علامت ہے۔ اگر اسے سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے تو مستقبل میں بامعنی مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔‘‘
دوسری جانب نئی دہلی میں دفاعی تجزیہ کار اجے سکسینہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ فیصلہ دونوں ممالک کے لیے سٹریٹیجک تناؤ کو کم کرنے کا موقع ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں عالمی طاقتیں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہیں۔‘‘
آگے کا راستہ
اگرچہ یہ معاہدہ ایک خوش آئند آغاز ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے پائیدار نتائج اس وقت ہی سامنے آئیں گے جب دونوں ممالک دیگر دیرینہ تنازعات — خاص طور پر مسئلہ کشمیر — پر بھی کھلے دل کے ساتھ بات چیت کا راستہ اپنائیں گے۔
دونوں حکومتوں کی جانب سے باضابطہ اعلامیہ آئندہ دنوں میں متوقع ہے، جس میں اس معاہدے کی مزید تفصیلات اور عملدرآمد کا فریم ورک عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button