
پاکستان میں کینال منصوبے پر شدید احتجاج، مظاہرین کا وزیر داخلہ سندھ کے گھر پر حملہ، رہائش گاہ نذر آتش
حکومت عوامی خدشات کو سننے کے لیے تیار ہے، لیکن "جلاؤ گھیراؤ کی سیاست" کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
(سید عاطف ندیم-پاکستان): سندھ میں جاری متنازع کینال (نہر) منصوبے کے خلاف عوامی غصہ شدت اختیار کر گیا ہے، اور ہفتے کے روز احتجاجی مظاہرین نے وزیر داخلہ سندھ کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔ واقعہ سکھر میں پیش آیا، جہاں مقامی افراد کئی روز سے مجوزہ نہر کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف مقامی زمینوں پر قبضے کا سبب بن رہا ہے بلکہ ہزاروں خاندانوں کو بے دخل کرنے کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ واقعے کے بعد علاقے میں شدید کشیدگی پھیل گئی اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔
پُرتشدد احتجاج کی تفصیلات
عینی شاہدین کے مطابق، احتجاجی ریلی سکھر کے مین بازار سے شروع ہو کر وزیر داخلہ کی نجی رہائش گاہ تک پہنچی۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز، جھنڈے اور لاٹھیاں تھیں۔ ابتدا میں نعرے بازی کی گئی، لیکن اچانک مظاہرین میں سے کچھ مشتعل افراد نے گھر کے گیٹ پر دھاوا بول دیا، توڑ پھوڑ کی، اور پھر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔
آگ تیزی سے رہائش گاہ کے مرکزی حصے تک پھیل گئی۔ اطلاع ملنے پر فائر بریگیڈ اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی، تاہم تب تک گھر کا بیشتر حصہ جل چکا تھا۔ خوش قسمتی سے وزیر داخلہ اس وقت کراچی میں موجود تھے، اور گھر میں موجود عملے کو بحفاظت نکال لیا گیا۔
وزیر داخلہ کا ردعمل
وزیر داخلہ سندھ نے ایک ویڈیو بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا:
"یہ محض ایک ترقیاتی منصوبے کے خلاف احتجاج نہیں بلکہ قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کو احتجاج کا حق ہے، مگر پرتشدد کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ ہم ان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے جو عوامی املاک اور زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت عوامی خدشات کو سننے کے لیے تیار ہے، لیکن "جلاؤ گھیراؤ کی سیاست” کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
عوامی خدشات کیا ہیں؟
مظاہرین کے مطابق، کینال منصوبے کے ذریعے مقامی زمینیں حکومت یا نجی اداروں کو منتقل کی جا رہی ہیں، جس سے زرعی زمینیں ختم ہو جائیں گی اور لوگوں کے روزگار چھن جائیں گے۔ کئی دیہاتی خاندانوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کرنے کے نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔
مقامی کسان اتحاد کے رہنما حاجی گلزار لغاری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"ہم اس نہر کے خلاف مہینوں سے آواز اٹھا رہے ہیں، مگر کوئی ہماری نہیں سنتا۔ آج جو کچھ ہوا، وہ افسوسناک ہے مگر یہ حکومت کی بے حسی کا ردعمل ہے۔”
حکومتی مؤقف اور سیکیورٹی اقدامات
سندھ حکومت نے واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ شرپسند عناصر کو فوری گرفتار کیا جائے اور متاثرہ وزیر کے گھر کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
ادھر کراچی، حیدرآباد، اور نوابشاہ میں بھی کینال منصوبے کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، جہاں مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے۔
تجزیہ: احتجاج یا انتشار؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں زمینوں کے تنازعات اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر طاقت کے استعمال نے عوام میں عدم اعتماد پیدا کیا ہے۔ ’’کینال منصوبہ اگر واقعی عوامی مفاد میں ہے تو اس پر شفاف مشاورت اور مقامی شمولیت ضروری تھی،‘‘ معروف تجزیہ کار ضیاء الرحمان نے کہا۔
نتیجہ:
کینال منصوبے کے خلاف عوامی احتجاج نے خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے۔ وزیر داخلہ سندھ کی رہائش گاہ کو نذر آتش کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ معاملہ اب محض ترقیاتی منصوبے سے آگے بڑھ کر سیاسی اور سماجی بے چینی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدہ مکالمے کا آغاز نہ کیا، تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔