صحت

کورونا جیسے وبائی امراض: کیا پاکستان آئندہ ہیلتھ ایمرجنسیز کے لیے تیار ہے؟

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متعدد بار دعویٰ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی وبا یا ہیلتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے بہتر تیار ہیں

(خصوصی رپورٹ-سید عاطف ندیم-پاکستان): دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی کووِڈ-19 کی عالمی وبا کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اس کے اثرات اب بھی مختلف شکلوں میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس بحران نے نہ صرف صحت عامہ کے نظام کی کمزوریاں بے نقاب کیں بلکہ دنیا بھر کو یہ سبق بھی دیا کہ وباؤں سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا صرف طبی شعبے کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے۔

پاکستان، جس نے ابتدائی مشکلات، طبی سہولیات کی کمی اور عوامی شعور کی کمی کے باوجود کورونا کے دوران کچھ حد تک مؤثر اقدامات کیے، اب ایک نئے سوال کا سامنا کر رہا ہے:
کیا پاکستان آئندہ کسی بھی ہیلتھ ایمرجنسی کے لیے تیار ہے؟

کورونا کے دوران کیا سیکھا گیا؟

پاکستان میں مارچ 2020 سے کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق کے بعد حکومتی اداروں، نجی شعبے، اور عالمی تنظیموں نے مل کر وائرس کے پھیلاؤ کو قابو پانے کی کوشش کی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (NCOC) کا قیام، سمارٹ لاک ڈاؤنز، ماس ویکسینیشن، اور عوامی آگاہی مہمات کو عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر ممالک نے سراہا۔

تاہم، اس عرصے میں کئی اہم کمزوریاں بھی واضح ہوئیں:

  • ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور آکسیجن کی شدید کمی

  • طبی عملے کی تربیت میں خلا

  • لیبارٹری ٹیسٹنگ اور ڈیٹا مینجمنٹ کا ناقص نظام

  • دیہی علاقوں میں ہیلتھ سروسز کی عدم موجودگی

  • ویکسینیشن پر اعتماد کا فقدان اور سازشی نظریات

موجودہ تیاری کی صورتحال

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متعدد بار دعویٰ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی وبا یا ہیلتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے بہتر تیار ہیں۔ وزارتِ صحت کے مطابق:

  • نئے بایو سیفٹی لیول 3 لیبارٹریز قائم کی جا چکی ہیں۔

  • ہیلتھ ایمرجنسی ریسپانس پلان (PHERP) کو اپڈیٹ کیا گیا ہے۔

  • ڈسٹرکٹ ہیلتھ رسپانس یونٹس بنائے گئے ہیں۔

  • ادویات اور حفاظتی سامان کا ذخیرہ اب بہتر منظم انداز میں رکھا جا رہا ہے۔

تاہم، زمینی حقائق اور صحت کے شعبے سے وابستہ ماہرین اس بات سے متفق نہیں۔

ماہرین کا مؤقف

پبلک ہیلتھ ماہر ڈاکٹر نسیم اکرم کا کہنا ہے:
"وباؤں سے نمٹنے کے لیے صرف ہسپتال بنانا کافی نہیں۔ ہمیں ایک مضبوط، مربوط اور قابلِ بھروسا ڈیجیٹل ہیلتھ انفراسٹرکچر، تحقیق، اور مقامی ویکسین یا دوا کی تیاری پر توجہ دینی ہوگی۔”

ڈاکٹر سمیعہ حسن، جو عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ساتھ کام کر چکی ہیں، کہتی ہیں:
"اگر کل کوئی نیا وائرس پھیل جائے، تو ہمارے پاس ابھی بھی نیشنل لیول پر کوئی فوری ردعمل کی یکساں پالیسی یا مشق نہیں۔ ہر صوبہ الگ طریقے سے کام کرتا ہے، جو مسائل پیدا کرتا ہے۔”

عوامی رویہ اور چیلنجز

کورونا کے دوران سامنے آنے والا سب سے بڑا چیلنج عوام کا غیر سنجیدہ رویہ تھا۔ ماسک پہننا، ویکسینیشن کرانا، اور سماجی فاصلے جیسے اصولوں کو کئی حلقوں نے غیر ضروری اور بعض نے تو مذہبی یا سیاسی سازش قرار دیا۔ اس روش کو تبدیل کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

کیا کرنا ہوگا؟ – تجاویز

  1. قومی ہیلتھ ایمرجنسی اتھارٹی کا قیام: جو تمام صوبوں کو یکساں پالیسی فراہم کرے۔

  2. ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر بجٹ میں اضافہ۔

  3. مقامی دوا اور ویکسین کی تیاری کی صلاحیت میں بہتری۔

  4. ڈسٹرکٹ لیول پر وبا کی نگرانی (Surveillance) سسٹمز کا قیام

  5. طبی عملے کی ہنگامی تربیت اور بھرتی

  6. عوامی آگاہی مہمات کو مسلسل جاری رکھنا، خاص طور پر دیہی اور کم تعلیم یافتہ علاقوں میں۔

نتیجہ

پاکستان نے کورونا کی وبا سے بہت کچھ سیکھا، لیکن مستقبل کی وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف یادیں اور تجربات کافی نہیں۔ مستقل ادارہ جاتی اصلاحات، سرمایہ کاری، تحقیق، اور سب سے بڑھ کر عوامی اعتماد اور تعاون لازمی ہے۔ وبائی امراض اب کوئی "کبھی کبھار” پیش آنے والا واقعہ نہیں بلکہ ایک مستقل خطرہ ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے مستقل تیاری ضروری ہے۔


کیا پاکستان تیار ہے؟
اس سوال کا جواب صرف حکومتوں یا پالیسی سازوں نے نہیں، بلکہ پورے معاشرے نے دینا ہے — کیونکہ صحت کا تحفظ ایک قومی ذمہ داری ہے۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button