کالمزسید عاطف ندیم

بغاوت، بہادری یا بقا؟ – واگنر کی کہانی، پوتین کی آزمائش……..سید عاطف ندیم

روس کے طاقتور سیاسی ڈھانچے میں ایسا عمل محض احتجاج نہیں سمجھا جاتا — یہ براہِ راست اقتدار کو چیلنج کرنا تھا۔ حیرت انگیز طور پر، نہ صرف پریگوزن نے یہ چیلنج دیا

روس جیسے سخت گیر اور طاقت ور ریاستی نظام میں ایسی کھلی بغاوت، جیسی کہ واگنر گروپ کی صورت میں سامنے آئی، ناقابل یقین تھی۔ ایوگینی پریگوزن کی جانب سے اپنی ہی حکومت، اپنی ہی فوج، اور اس فوج کے سربراہان پر تنقید، پھر کھلے عام جنگ کو "غیر ضروری” قرار دینا، اور بالآخر ماسکو کی طرف پیش قدمی کرنا… یہ سب کچھ گویا تاریخ کے صفحات پر ایک نئی لکیر کھینچ گیا۔
یہ کوئی معمولی فوجی بغاوت نہ تھی۔ یہ ریاست کے اندر ایک ریاست کی بغاوت تھی۔ وہ ریاست جو خود حکومت کی منظوری سے پروان چڑھی، جنگوں میں استعمال ہوئی، سفارتی معاملات پر اثر انداز ہوئی، اور دنیا کے کئی خطوں میں خفیہ اور نیم سرکاری کارروائیوں میں مصروف رہی۔
پریگوزن نے اس سارے عمل کو "انصاف کی تحریک” قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ روسی فوج کی قیادت ناکام ہے، سپاہیوں کی قربانیاں ضائع ہو رہی ہیں، اور جنگ یوکرین میں طاقت کے حصول سے زیادہ اقتدار کی سیاست کا کھیل بن چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ صرف احتجاج تھا تو مسلح مارچ اور شہر پر قبضے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
روس کے طاقتور سیاسی ڈھانچے میں ایسا عمل محض احتجاج نہیں سمجھا جاتا — یہ براہِ راست اقتدار کو چیلنج کرنا تھا۔ حیرت انگیز طور پر، نہ صرف پریگوزن نے یہ چیلنج دیا، بلکہ چند گھنٹوں تک وہ کامیاب بھی دکھائی دیے۔ روستوف آن ڈان پر قبضہ، ماسکو کی طرف تیز رفتار پیش قدمی، اور پھر دنیا کی نظریں روس پر جم جانا — گویا کریملن کی دیواریں ہلنے لگی ہوں۔
بغاوت کے آغاز میں صدر پوتین نے قدرے تاخیر سے بیان جاری کیا۔ اگرچہ انھوں نے پریگوزن کو "غدار” قرار دیا، مگر اس پورے واقعے میں ان کی خاموشی، تحمل یا بظاہر بے بسی کو بہت سے ماہرین نے طاقت کی بجائے کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھا۔
کیا یہ وہی پوتین ہیں جنہوں نے چیچنیا، جارجیا، کریمیا اور یوکرین میں طاقت سے فیصلے کروائے؟ یا پھر اقتدار کا طویل عرصہ اور اندرونی چیلنجز نے ان کے ردعمل کو محتاط بنا دیا ہے؟
سب سے دلچسپ پہلو بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکا کا واگنر قیادت سے مذاکرات کے ذریعے بحران کو "حل” کرنا تھا۔ لوکاشینکا پوتین کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، اور ان کی حیثیت اکثر ایک "چھوٹے بھائی” جیسی سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن اس بار وہ بحران کے منصف کے طور پر سامنے آئے۔
پریگوزن نے ان کے توسط سے پسپائی اختیار کی، ہتھیار ڈالے، اور مبینہ طور پر بیلاروس منتقل ہو گئے۔ یہ لمحہ شاید پوتین کی ذاتی اور سیاسی ساکھ کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ رہا۔ ایک طاقتور آمر اپنے ہی پیدا کردہ کردار سے مذاکرات نہیں کر سکا، اور یہ کام اسے اپنے چھوٹے اتحادی سے کروانا پڑا۔
سوالات جو باقی ہیں
واگنر گروپ کی بغاوت نے روس کے سیاسی اور عسکری نظام پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں:
کیا پوتین کی گرفت اتنی مضبوط ہے جتنی دنیا سمجھتی تھی؟
کیا واگنر جیسی غیر ریاستی طاقتیں اب ریاست سے بڑی ہو چکی ہیں؟
کیا بیلاروس روسی اثر سے نکل کر خود مختار کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
اور سب سے اہم: کیا یہ بغاوت ایک نئی داخلی تقسیم کا آغاز ہے؟
پریگوزن کی پسپائی، بغاوت کا اختتام، اور ماسکو میں بظاہر امن کی بحالی ایک وقتی بندوبست ضرور ہو سکتا ہے، لیکن یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ روسی نظام میں طاقت کے توازن میں کہیں نہ کہیں ایک دراڑ ضرور پڑ چکی ہے۔ شاید یہ بغاوت مکمل انقلاب نہ ہو، لیکن یہ طاقت کی بنیادوں پر پہلا پتھر ضرور ثابت ہو سکتی ہے۔
روسی تاریخ میں ایسی بغاوتیں کم نظر آتی ہیں، مگر جب آتی ہیں، تو وہ آنے والے وقت کا رخ ضرور بدلتی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button