
ٹرمپ کا دورہ عرب دنیا…….حیدر جاوید سید
ہمارے دیندار طبقے پاکستان کو دستیاب عالم اسلام کا مولا جٹ سمجھتے ہیں ایسا مولا جٹ جس کا نوری نت سے سامنا نہیں ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب و قطر وغیر کے دوران قدیم مقامی ثقافتی روایات کے مطابق ان کے استقبال پر سوشل میڈیا کے بڑے پاکستانی حصے کو آگ لگی ہوئی ہے۔ دیسی بدو عربوں کو اسلامی تہذیب و تمدن سے منحرف قرار دے رہے ہیں تو کچھ عرب ایران تقابلی جائزہ پیش کرکے ’’رانجھا‘‘ راضی کررہے ہیں۔ کرہ ارض پر امریکہ کی سب سے بڑی دشمن جماعت اسلامی پاکستان سمیت دینداروں کا مخصوص حصہ ’’دڑوٹے‘‘ (چپ) ہوئے ہے ۔
البتہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا ٹرمپ کی دعوتوں کے ساتھ غزہ میں غذائی بحران کا شکار بچوں کی تصاویر اور ویڈیو شیئر کرکے جذبہ ایمانی کا اظہار ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے اگلے روز ایک جذباتی (ویسے جذباتی خطاب کب نہیں کرتے؟) خطاب میں فرمایا پاکستان کو لگے ہاتھوں ایک میزائل اسرائیل پر بھی ماردینا چاہیے تھا یہ غزہ کا بدلہ ہوتا ، ہمارے دیندار طبقے پاکستان کو دستیاب عالم اسلام کا مولا جٹ سمجھتے ہیں ایسا مولا جٹ جس کا نوری نت سے سامنا نہیں ہوگا۔
دینداروں کی اس نسل (جو ہماری ہم عصر ہے) کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے نسیم حجازی حفظ کررکھا ہے۔ نسیم حجازی کے تاریخی رومانی مارکہ ناولوں میں ایک یہودن لڑکی مسلمان گھڑ سوار پر عاشق ضرور ہوا کرتی تھی آخر میں وہ یا تو گھڑ سوار محبوب پر ’’فدا‘‘ ہوجاتی یا پھر گھوڑے پر اس کے پیچھے بیٹھ کر میکے والوں سے جان بچاکر نکل جاتی۔
خیر نسیم حجازی کو چھوڑیں ہم ٹرمپ کے دورہ عرب و خلیجی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور صدارت کی طرح اس بار بھی عربوں سے کھربوں ڈالر کے اسلحہ اور طیاروں کے آرڈرز وصول کئے۔ دیسی بدو ( ہندو پاک کے مسلمان ) پوچھ رہے ہیں کہ عرب اس اسلحہ کا کیا کریں گے؟ فقیر راحموں کہتا ہے کہ ’’ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں خریدا گیا اسلحہ گولہ بارود وغیرہ جہاں استعمال ہوا تھا اب بھی وہیں یا اس جیسے کسی میدان میں استعمال ہوگا‘‘۔
ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران ہئیت التحریر الشام کے سربراہ اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع الجولانی بھی ریاض پہنچے۔ ٹرمپ کی دست بوسی فرمائی ٹرمپ درمیان میں تھے ایک طرف الجولانی دوسری طرف محمد بن سلمان یہ تین نفری تصویر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنی۔
احمد الشرع الجولانی کے سر پر رکھا کروڑوں ڈالر کا انعام امریکہ نے حالیہ خدمات کے عوض ختم کردیا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی امریکی درخواست پر محمد بن سلمان نے تو لب کشائی سے گریز کیا البتہ الجولانی بولے ’’ہم اسرائیل سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں‘‘۔
بشارالاسد کی حکومت کا محض دو ہفتوں میں تختہ الٹنے والی ہئیت التحریر الشام بارے طالب علم نے ان سطور میں تفصیل کے ساتھ عرض کیا تھا تب پڑھنے والوں کے بڑے طبقے نے سوقیانہ جملے گالیاں اور فتوے اچھالے۔ اب جب ان کے شہزادہ ہائے شام نے قبلہ ٹرمپ کی دست بوسی فرمائی ہے تو وہ جملے گالیاں اور فتوے دینے والے شرمندگی "ضرور” محسوس کررہے ہوں گے۔
یہ ہم برصغیر پاک و ہند وغیرہ کے دیسی مسلمان پتہ نہیں اکڑتے کس بات پر ہیں ہم میں سے ننانوے فیصد کا علم دین خطبہ جمعہ اور عیدین کے خطبات کے ساتھ اپنے اپنے فرقہ وارانہ عقائد سے عبارت ہے۔ جبیل بن قبیل ابن دائود حضرمی سے بھائی چارے کے شوق میں ہم اپنے رشتوں سے کٹ گئے فقط رشتوں سے نہیں اپنی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور علم و ادب سے بھی کیونکہ یہ ساری مقامی چیزیں کفر، حرام ، شرک و مردود ٹھہرائی گئیں ۔
ہمارے مقابلہ میں بلاد عرب والے اپنی کسی چیز سے دستبردار نہیں ہوئے کچھ معاملات میں اتار چڑھائو آتا رہا لیکن وہ اپنے عرب ہونے پر کل کی طرح آج بھی نازاں ہیں وہ پہلے عرب ہیں پھر مسلمان یہاں ہمیں صدیوں سے گھوٹ کر پلایا جارہا ہے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں پھر مسلمان اور پھر بھی مسلمان۔ دینداروں کی پلائی اس ’’سردائی‘‘ کے اپنے ہی سرور ہیں۔
اچھا ویسے اگرعرب دنیا میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ سے خطبہ جمعہ بھی دلوالیتے تو ہم دیسیوں نے عربوں کا کیا بگاڑ لینا تھا نہیں دلوایا ان کی مہربانی اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاد عرب اور خلیج فارس کے جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا وہ اب کیا کرتے ہیں؟
تسلیم کریں نہ کریں ہمیں کیا ہمارے ہاں تو کہا جارہاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کے جواب میں ایک سال پیشگی پاکستان بنوادیا تھا۔ اب یہ کیا سائنس ہے ہم تو نہیں سمجھ پائے کوئی نیک و صالح مسلمان سجھ پایا ہو تو ہمیں بھی آگاہ کرے۔
ویسے یہودیوں کا ایک طبقہ بھی یہی کہتا ہے کہ ’’اسرائیل ربِ موسیٰؑ کی عنایت ہے۔ اور عنایت دائمی ہوتی ہے۔‘‘
ٹرمپ نے عرب دنیا کے دورہ میں خوب مال سمیٹا آرڈرز لئے تحائف بھی، کروڑوں ڈالر کا طیارہ قطر نے تحفہ میں دیا۔ قطر والے چاہتے تو ٹرمپ کو طیارہ تحفے میں دینے کی بجائے یہ رقم غزہ کے مسلمانوں کی بحالی پر بھی خرچ کرسکتے تھے۔ چلیں ہمیں کیا پیسہ ان کا جہاں چاہیں خریچ کریں پھونک دیں یا سمندر میں پھینک دیں البتہ ہمارے ہاں ٹرمپ کے دورہ عرب دنیا کے دوران دیسی بدووں کی مسلمانی جس طرح ’’جوش‘‘ مارتی رہی اس جوش کے کیا کہنے کاش یہ جوش اپنے چار اور کے کمزور طبقات کو زندگی سے جوڑنے کے لئے بھی ایسے یہ جوش مارے۔
معاف کیجئے گا کالم کا بڑا حصہ ٹرمپ کے دورہ عرب دنیا پر صرف ہوگیا ہمارے اپنے مسائل ہیں حالات اور واقعات بھی۔ مثال کے طور پر میں جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے حامیوں کو ایک دوسرے کے لتے لیتے دیکھتا ہوں تو بڑا لطف آتا ہے ان کی اکثریت (دونوں کی) 1990ء کی دہائی سے نہیں نکل پائی۔ اندھی شخصیت پرستی کا المیہ یہی ہے کہ اپنے دماغ سے کام نہیں لیتے بس بائولوں کی طرح لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
باتیں کچھ اور بھی ہیں لیکن وہ باتیں ہی ہیں۔ مسائل ان باتوں سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ مختصر پاک بھارت جنگ کا کسی کو کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہیں بڑے میڈیا ہائوسز کی بن آئی ہے ان پر رنگین سرکاری اشتہارات کی برسات جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میڈیا مالکان پر ہمیشہ مہربان رہتی ہے رہنا بھی چاہیے۔
جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے پاک بھارت 18 مئی تک کے سیز فائر کے مستقبل کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ سیز فائر میں مزید عبوری اضافہ ہوتا ہے یا مستقل جو بھی ہو خطے کے عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے۔
عام لوگ (دونوں جانب کے) بدترین مسائل کا شکار ہیں غربت، بیروزگاری، عدم سماجی توازن، مذہبی و فرقہ وارانہ شدت پسندی ان سب کا جادو دونوں ممالک میں سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
شدت پسندی ایک بڑے طبقے کا روزگار ہے۔ افسوس کہ دونوں جانب اس شدت پسندی کو ریاستوں کی چھتر چھایہ حاصل ہے۔ بہرطور ہم تو عرض ہی کرسکتے ہیں کہ خلقِ خدا کو لاحق مسائل و مشکلات کے ازالے کے لئے حکمت عملی وضع کیجئے تاکہ یہاں بھی امن و سلامتی اور ترقی کا دوردورہ ہو۔