صحت

دنیا کو وباؤں سے بچانے کا تاریخی معاہدہ منظور

رکن ممالک کی قیادت، تعاون اور عزم کی بدولت آج دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے

جاوید اختر اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ

عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک نے مستقبل میں صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے منگل کے روز ایک تاریخی وبائی معاہدہ منظور کر لیا۔ اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے کووڈ وبا کے بعد بات چیت تین سال سے زیادہ عرصے تک چلی۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے معاہدے کو منظوری ملنے کے بعد کہا، "اس معاہدے کے ساتھ ہم تاریخ کی کسی بھی نسل کے مقابلے میں وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ رکن ممالک کی قیادت، تعاون اور عزم کی بدولت آج دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ یہ معاہدہ صحت عامہ، سائنس اور کثیرفریقی طریقہ کار کی فتح ہے۔

گیبریاسس کا کہنا ہے کہ "معاہدے کی بدولت مستقبل کی ممکنہ وباؤں سے نمٹنے کی بہتر تیاری کے لیے اجتماعی اقدامات یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ عالمی برادری کی جانب سے اس عزم کا اظہار بھی ہے کہ آئندہ شہریوں، معاشروں اور معیشتوں کو ایسے حالات کا سامنا نہ ہو جو انہیں کووڈ انیس وبا میں پیش آئے۔”

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے

معاہدے تک پہنچنے میں تین سال لگے

دنیا بھر کے ممالک اس معاہدے پر پہنچنے کے لیے تین سال سے گفت و شنید کر رہے تھے۔ کووڈ۔19 وبا سے ہونے والی تباہ کاری، اس دوران دنیا بھر کے نظام ہائے صحت میں آشکار ہونے والی خامیاں اور بیماری کی تشخیص، علاج اور اس کے خلاف ویکسین کی فراہمی کے معاملے میں بڑے پیمانے پر دیکھی جانے والی عدم مساوات اس معاہدے کے بنیادی محرکات ہیں۔

معاہدے کے متن کو گزشتہ ماہ کئی دور کے کشیدہ مذاکرات کے بعد اتفاق رائے سے حتمی شکل دی گئی۔

معاہدے کی منظوری کے موقع پر فلپائن کے وزیر صحت اور رواں سال ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے صدر ڈاکٹر ٹیوڈورو ہربوسا نے کہا کہ معاہدہ طے پانے کے بعد تمام ممالک کو اس پر عملدرآمد کے لیے بھی اسی تندہی اور لگن سے کام کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں وباؤں سے نمٹنے کے لیے درکار طبی سازوسامان تک مساوی رسائی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کووڈ ایک ایسا طبی بحران تھا جس کی ماضی میں طویل عرصہ تک کوئی مثال نہیں ملتی، اسی طرح یہ معاہدہ بھی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کا ایک غیرمعمولی اقدام ہے۔

ڈبلیو ایچ او
یہ دوسرا موقع ہے جب رکن ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی ایسے معاہدے پر اتفاق رائے کیا ہے جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو گا

معاہدے کے اہم نکات

ڈبلیو ایچ او کے اس معاہدے میں وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کے خلاف اقدامات کے لیے عالمگیر طبی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے درکار اصول، طریقہ ہائے کار اور ذرائع تجویز کیے گئے ہیں۔

اس معاہدے کی رو سے رکن ممالک میں ادویہ ساز اداروں کو وباؤں سے متعلق 20 فیصد طبی سازوسامان بشمول ویکسین، علاج معالجے اور مرض تشخیص کے لیے درکار اشیا ڈبلیو ایچ او کے لیے مخصوص رکھنا ہوں گی۔ یہ ادویات اور سامان ہنگامی طبی حالات میں کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔

اس میں ممالک کی قومی خودمختاری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ معاہدہ ڈبلیو ایچ او کے سیکرٹریٹ، اس کے ڈائریکٹر جنرل یا دیگر حکام کو طبی معاملات اور ہنگامی طبی حالات میں کسی ملک کے قوانین یا پالیسیوں کو تبدیل کرنےکا اختیار نہیں دیتا۔

یہ دوسرا موقع ہے جب رکن ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی ایسے معاہدے پر اتفاق رائے کیا ہے جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو گا۔ اس سے قبل 2003 میں تمباکو نوشی کی عالمگیر وبا پر قابو پانے کے لیے فریم ورک کنونشن کی منظوری دی گئی تھی۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے معاہدے کو "مستقبل کی فتح” قرار دیا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button