
تھرپارکر (نمائندہ خصوصی) — صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں خوبصورتی اور قدرتی حسن کی علامت سمجھے جانے والے موروں کی ہلاکت کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تھر کے مختلف دیہی علاقوں میں 100 سے زائد مور پراسرار طور پر ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے نہ صرف مقامی آبادی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ ماحولیاتی ماہرین اور محکمہ وائلڈ لائف کے حکام بھی پریشان نظر آ رہے ہیں۔
شدید گرمی اور پانی کی کمی بنیادی وجوہات
علاقہ مکینوں کے مطابق تھرپارکر میں درجہ حرارت مسلسل 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ پانی کی شدید قلت بھی جانوروں اور پرندوں کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہے۔ خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں میں نہ تو مناسب شیلٹر دستیاب ہے اور نہ ہی صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو رہی ہے، جس کے باعث یہ نازک پرندے شدید گرمی کے اثرات برداشت نہیں کر پا رہے۔
ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور نے اس حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحصیل مٹھی کے مختلف دیہات، خصوصاً بھیماسر گاؤں سے موروں کی اموات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق محکمہ جنگلات و وائلڈ لائف کی ایک خصوصی ٹیم کو بھیماسر روانہ کیا گیا ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں موروں کی صحت کا جائزہ لے کر علاج کیا جا سکے۔
موسمیاتی تبدیلی بھی ایک اہم عنصر
ڈپٹی ڈائریکٹر پولٹری ڈیپارٹمنٹ کے مطابق موروں کی ہلاکت کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ اور بارشوں کی کمی سے نہ صرف پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے بلکہ جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرمی موروں کے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے وہ بے ہوش ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر بروقت طبی امداد فراہم کی جائے تو موروں کا علاج ممکن ہے اور ان کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ تاہم تھرپارکر جیسے دور دراز اور وسائل سے محروم علاقے میں فوری اور مؤثر طبی امداد کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کی تشویش
ماحولیاتی ماہرین نے موروں کی مسلسل ہلاکت کو ایک خطرناک اشارہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں مور صرف ایک خوبصورت پرندہ ہی نہیں بلکہ مقامی ماحولیاتی توازن کا اہم جزو بھی ہیں۔ ان کی ہلاکت قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کر سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو تھرپارکر میں موروں کی نسل کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس میں وائلڈ لائف، زرعی، اور آبی وسائل کے محکمے باہمی اشتراک سے کام کریں۔
عوامی مطالبات اور سرکاری اقدامات
مقامی افراد نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ تھرپارکر کے دیہی علاقوں میں وائلڈ لائف کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں، موبائل طبی ٹیمیں روانہ کی جائیں اور پانی کے ذخائر قائم کیے جائیں تاکہ موروں سمیت دیگر جنگلی حیات کو بچایا جا سکے۔
محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں ویکسینیشن، فیلڈ سرویلس، اور آگاہی مہمات شامل ہیں۔
یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس کے اثرات براہِ راست حیاتیاتی تنوع اور مقامی معاشرت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ تھرپارکر جیسے حساس علاقوں میں فوری اور پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ قدرتی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔