
دیوتا معمار انقلابی اور ساجھے داری کا نظام …….حیدر جاوید سید
مذہب مسلک اور سیاست شخصیت پرستی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ہماری پسند اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے باقی دھتکارے ہوئے........
جنرل (ر) حمید گل سے جنرل (ر) فیض حمید تک ذہن سازی کرنے والوں نے اسے باور کروایا کہ اس ملک میں واحد دیانتدار اور انقلابی معمار صرف تم ہو ذہن سازی کی اس مدت میں چند اتالیق بھی مہیا کئے گئے ان میں ایک کو تو انقلابی معمار کے ہم نوا پی ٹی آئی کا ’’لینن‘‘ بھی قرار دیتے تھے۔ گو یہ لینن سے زیادتی تھی اگر وہ زندہ ہوتے تو اس مماثلت پر خودکشی بارے سوچتے لیکن ہمارے ہاں کوئی بھی کچھ بھی ہو اور بن سکتا ہے۔
مذہبی مسلکی سیاسی درجنوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں ان مثالوں کے شاہکار ہمارے آپ کے چار اور ’’رقصاں‘‘ ہیں دیکھ لیجئے اور حظ اٹھایئے۔
نصف صدی سے تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ بٹوارے کے کھیتوں میں گلاب نہیں اگتے۔ دوست احباب ناراض ہوتے ہیں کہتے ہیں یہ کہنے لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ میں بھی اب سوچنے لگا ہوں دوست احباب کا مشورہ مان ہی لوں انہیں ناراض کرنے کا کیا فائدہ ۔
گزشتہ شب دوستوں کی ایک محفل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالتِ زار پر خدا ترسی سے بھری گفتگو کے دوران عرض کیا۔ چلیں یہ بتادیں کون سی مسلم ریاست سکیورٹی اسٹیٹ نہیں ہے؟
اس سوال پر خاموشی نے دبوچ لیا۔ ظاہر دستیاب مسلم دنیا کی ساری ریاستیں سکیورٹی اسٹیٹ ہی ہیں۔
اکثر سننے کو ملتا ” جمہویرت اور مسلمانوں کے درمیان خدا واسطے کا بیر ہے‘‘۔ اس بات کو رد کیسے کیا جائے کڑوا سچ یہی ہے۔
مذہب مسلک اور سیاست شخصیت پرستی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ہماری پسند اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے باقی دھتکارے ہوئے صدیوں سے نسل در نسل بڑھتی پھلتی پھولتی اسی سوچ کو ہمارے ہاں کی سکیورٹی اسٹیٹ کے کل پرزوں نے ہتھیار بنایا صرف بنایا نہیں بلکہ اس کا بے رحمی سے استعمال بھی کیا نتیجہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔
ترجمہ تفسیر اور تعبیر جو مرضی کرلیجئے مگر تلخ حقیقت یہی ہے اس تقسیم شدہ سماج پر ٹوٹتے عذابوں کے ذمہ دار وہی ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ اگر وہ ریاست اور نظام کے نیچے سے اپنے کاندھے ہٹالیں تو سب دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔
کاش اتنے ذہین سائنسدان دنیا کے کسی اور ملک کو بھی نصیب ہوتے جو قدرت نے ہمارے حصے میں لکھ دیئے۔ قدرت کے لکھے والی بات بلاوجہ نہیں کردی۔ ہمارے ہاں کی معروف متھ یہی ہے ’’اللہ سائیں کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔‘‘ عاجز سا شخص ہوں اس متھ سے پنگا لینے کا حوصلہ نہیں ہے۔
ان دنوں میرے کچھ دوستوں کو انقلاب کا درد چین نہیں لینے دیتا اس میں دائیں اوربائیں بازو کے متروک انقلابیئے بھی ہیں اور چند سماج سدھار بھی ان دوستوں کے سامنے ہمیشہ یہ سوال رکھتا ہوں کہ کیا جھوٹ سے گندھی تاریخ اور ریت سے اُسارے گئے محلات میں زندہ رہا جاسکتا ہے؟
وہ مجھے ایسی حیرانی سے دیکھتے ہیں جیسے میرا دماغ چل گیا ہو۔
بات دور نکل گئی ہم ابتدائی سطور کی طرف پلٹتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس ملک کے لئے ایک ایماندار سمارٹ دیوتا مسیحا انقلابی معیار تخلیق کررہے تھے کیا خود انہیں ایمانداری چھوکر بھی گزری تھی؟
اس مختصر سادہ سے سوال پر غور کیجئے جواب مل جائے گا۔ میں کہتا ہوں دیوتا کے دیوانے بدزبان ہیں جواب ملتا ہے پہلے کون سا اخلاقیات کے اعلیٰ معیار قائم تھے؟ کسی حد تک بات درست ہے لیکن ماضی کے بدزبانوں نے وقت اور حالات سے سبق سیکھ لیا آپ بھی سیکھ لیجئے کیونکہ سیاسی عمل میں دروازے بند کرکے بیٹھ جانا اور اپنے سوا کسی کے وجودکو تسلیم ہی نہ کرنا ایسا منفی رویہ ہے جو تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔
سیاسی عمل میں بات چیت اچھی بری سیاسی قوتوں سے ہی ہوتی ہے۔ دیوتا گیری سیاست میں زیادہ دیر نہیں چلتی انسانوں کے معاشرے میں ہر کس و ناکس میں کچھ نہ کچھ کج ہوتے ہیں کم یا زیادہ ہوتے بہر طور ہوتے ہیں یہاں کامل و افضل کوئی نہیں ہوتا۔
آپ دیکھ لیجئے اس ملک میں جس شخص کو اپنے سچا اور دیانتدار ہونے کا سب سے زیادہ زعم ہے وہ عدالتی حکم پر پولی گرافک ٹیسٹ کے لئے تیار نہیں بلکہ اس نے تحریری طور پر لکھ کے دے دیا ہے کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے استغاثہ مجھے پھنسانا چاہتا ہے۔
گزرے برسوں میں اس ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس نے عدالتی طور پر انہیں ’’صادق و امین‘‘ قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا بنایا ٹھہرایا سنوارا صادق و امین پولی گرافک ٹیسٹ سے انکاری ہے۔
حالت یہ ہے کہ انقلابی معمار اور عدالتی صادق و امین کی پارٹی کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ اسے تحریک انصاف چھوڑنے کے لئے مجموعی طور پر 23 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔ یہ وہی خاتون رکن قومی اسمبلی ہیں جو قبل ازیں یہ دعویٰ کرچکی ہیں کہ 2018ء ٍمیں الیکشن جیتنے کے بعد سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے تک کے درمیانی دنوں میں عمران خان پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔
جس ٹی وی پروگرام میں اس نے یہ دعویٰ ٹھوکا اس کا میزبان اور دوسرے مہمان حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
ایسا باندھ کر جھوٹ، اس پر کیا تبصرہ کیجئے۔
بہرطور حالات جس سمت تیزی سے بڑھ رہے ہیں کم از کم مجھے تو اصلاح احوال کی کوئی صورت بنتی دیکھائی نہیں دے رہی۔ انقلابی معمار پاکستان کے لئے صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے۔اس کے حواری موالی اپنے ہر مخالف کی توہین اور اسے گالی دینا واجب سمجھتے ہیں اس کے نام پر مال بنانے والے اور اس کی مقبولیت پر لیڈری چمکانے والے چاہتے ہیں وہ جیل میں ہی رہے کیوں؟
یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث نہیں جو سمجھ میں نہ آسکتا ہو۔ درست یا غلط اس کے حوالے سے ایک سٹوری بھارتی چینل کو 2 ہزار ڈالر میں بیچ دینے والے ٹکر کے آدمی سیمت سب لگی کے دائو پر ہیں۔
ابھی دو دن قبل (یہ سطور لکھے جانے سے) پی ٹی آئی کے چند بڑوں میں اس بات پر کامل اتفاق پایا گیا انقلابی معمار کی بہنیں اور چند یوٹیوبر مسلسل غلط بیانی کرکے معاملات کو بگاڑ رہے ہیں خیر یہ ان کا مسئلہ ہے میرے لئے دو اطلاعات اہم ہیں اولاً یہ کہ شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل کالج کے مالیاتی امور بالخصوص سالانہ آڈٹ نہ کرانے سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کا حل ان اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے پر غور ہورہا ہے۔
اسی طرح 9 اور 10 مئی کے فوجی عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات کے اگلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران آنے والے فیصلوں میں بڑے پیمانے پر سزائیں سنائی جاتی ہیں تو اس سے پارلیمان کے کتنے ارکان متاثر ہوں گے اس کے ساتھ ہی فارن فنڈنگ کیس کا گھمبیر معاملہ ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت عدالتی فیصلوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے عہدہ برآ ہوپائے گی؟ کم از کم مجھے نہیں لگتا کہ مارکیٹ میں دستیاب قیادت کے پاس مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی ہوگی بالخصوص اس صورت میں جب ہر شخص دوسرے کو مخبر سمجھتا قرار دیتا ہو۔
ایک خاص نفرت پر ہوئی ذہن سازی میں بدلائو کیسے آئے گا۔ کیا کوئی چند قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہے؟
ایک طالب علم کے طور پر میں تو برسوں سے عرض کرتا آرہا ہوں کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں انتقال اقتدار کو نہیں ساجھے داری کو اولیت حاصل ہوتی ہے اب بھی ساجھے داری کا ویسا ہی نظام چل رہا ہے جیسا 2018ء سے اپریل 2022ء کے درمیان چلایا گیا یا اس سے قبل۔
چلیں جہاں تین برس گزارلئے ڈیڑھ دو ماہ اور صبر کرلیجئے۔ منظرنامہ واضح ہوجائے گا۔ جو بات اس طالب علم کو سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ
’’واجاں ماریاں بلایا کئی وار وے کسے نے میری گل نہ سُنی‘‘۔ انقلابی معیار کے محبین کا دعویٰ ہے ان کی قیادت کے خلاف سارے مقدمات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ طالبعلم کا مشورہ یہ ہے کہ مقدمات میڈیا پر نہیں عدالتوں میں لڑیں۔
پسِ نوشت //
پنجاب میں غنڈہ ایکٹ کی نئی قانون سازی ایک دن نون لیگ کے ایسے ہی گلے پڑے گی جیسے آج اسے مخالفوں کا نمدہ کسنے کیلئے استعمال کرنے کے صلاح مشورے ہورہے ہیں