کالمزپیر مشتاق رضوی

پاکستان ایٹمی طاقت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان……تحریر پیر مشتاق رضوی

ایک رپورٹ کے مطابق بھارت عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک ہے

پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے پر ہر سال 28 مئی کو ”یوم تکبیر“ منانے کا مقصد اللہ تعالی کی کبریائی اور اسلام کی سربلندی کا عملی اظہار کرنا ہے "یوم تکبیر ” پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب بھارت کی طرف سے چار ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو "یوم تکبیر” کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ‏پاکستان مسلم دنیا کا پہلا اور واحد ایٹمی طاقت بننے والا ملک ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے مطابق 28 مئی کو کیے گئے ٹیسٹوں سے ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے، جس کی مجموعی پیداوار 40 KT تک ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھی اور باقی چار ذیلی کلوٹن ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو، پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز اس وقت ہوا جب وزیر اعظم پاکستان محمدعلی بوگرہ نے اپنے امریکہ کے دورے کے موقع پر وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر آیزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن (ایٹم فار پیس) کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لئے جوہری توانائی کے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک ہے جبکہ بھارت نے 1974ء میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔اور خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا تھا مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے یقینی دفاع کے لیے ایٹمی طاقت بننے کی جدوجہد شروع کرنی پڑی۔ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ مزید یہ بھی کہ بھارت نے ایٹمی قوت بنّنے سے قبل ہی پاکستان پر تین جنگیں مسلط کییں اور پاکستان پر جارحیت مسلط کرکے اس کو دو لخت کر چکا تھا۔ بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا مشہور قول ہے کہ ” گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے“
18مئی 1974ء کو بھارت نے راجستھان میں مشن "مسکراتا بدھا” نام سے ایٹمی دھماکے کیے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں اس وقت ہوئی جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اس مقصد کے لیے پاکستان بلایا (یاد رہے کہ اس بارے میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کی تھیں)۔ پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے اہم اقدام اٹھائے۔
پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا لیکن امریکی دباؤ پر فرانس نے یہ معاہدہ ختم کر دیا حالانکہ امریکہ اور یورپ نے بھارت کو ایٹمی پروگرام کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کیں اور بھارت کے ایٹمی پروگرام پر کوئی پابندیاں عائد نہ کیں جبکہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ جب امریکہ کو یہ باور ہو گیا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے تو امریکا نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستانی ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی غلطی بھی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ حساس ترین حالات اور بھاری پانی کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکا نے ایٹمی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے ایلومینیئم پرت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم پرت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان کیسے لائے جائیں۔ یاد رہے ایلومینیئم پرت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستے ایلومینیئم پرت کے پائپ پاکستان لانے کے لیے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈلوانے کے لیے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین ٹیکنالوجی کو اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں سے بچا کر پاکستان لانا تھا مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سرفروش مارخوروں نے اٹھایا۔
ایٹمی ٹیکنالوجی کی حساس ترین سپلائی پاکستان نے بھارت کی آنکھ میں دھول جھونک کر کامیابی سے پاکستان کی سرزمین پر لائی گئی۔ جرمنی کے مشہور شہر برلن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنس اور پھر بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے ڈاکٹریٹ آف میٹلرجیکل انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں، اس کے علاوہ انہوں نے ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔ بعدازاں وہ 1976 میں واپس پاکستان آگئے جہاں انہوں نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی جس کا نام یکم مئی 1981 کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا تھا۔
بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب میں مئی 1998 میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا جس کی نگرانی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہی کی تھی اور یوں 28 مئی کو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ پاکستان اب ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کئی مرتبہ اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ملک میں ایٹمی پروگرام سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے شروع کیا تھا جسے بعد میں مختلف حکمرانوں نے آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ نے ان کی سربراہی میں نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے بیلسٹک غوری میزائل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میری ملاقات 1987ء میں اس اس وقت ہوئی جب میں قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اس دوران معروف اینتھروپالوجسٹ ڈاکٹر اکبر ایس احمد کی دو کتابوں کی رونمائی کی تقریب ہالی ڈے اِن ہوٹل میں منعقد ہوئی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اس دوران ان سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا جو میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر میں اسلامی ایٹم بم کا خوب چرچا تھا اور اس ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان عالمی شہرت حاصل کر چکے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا تھا لیکن باوجود ایٹمی قوت ہونے کے باقاعدہ اعلان نہ کیا تھا۔ اس زمانہ میں بھارت کی جا رحانہ دھمکیوں کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک بیان جاری کر دیا جاتا تھا جس سے بھارت کی گیدڑ بھبھکیاں دھری رہ جاتی تھیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیکنالوجی کو بھی ترقی دی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ کہ ہم بھارت کے ایک ایک شہر کو پانچ بار میزائلوں سے تباہ کر سکتے ہیں پاکستان کے محب وطن حکمرانوں نے ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر جاری رکھا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کے بدلےجنرل ضیا کو اپنے ساتھی جرنیلوں سمیت اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی بعد ازاں صدر اسحاق خان مرحوم اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی کمپرومائز نہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشن کو جاری و ساری رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے وزارت عظمی کے دور میں غیر ملکی دوروں کے دوران ایٹمی ٹیکنالوجی کے فارمولے اور نقشے اپنے گاؤن میں چھپا کے لاتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ایٹمی پروگرام کی خاطر انہیں بھی اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکہ کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی ایٹمی طاقت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا لیکن بدقسمتی سے نگران ادوار میں ایٹمی پروگرام اور یورینیم کی افزودگی کو کیپ کر دیا گیا "سبھوں کو ٹھیک کرنے والے” جنرل پرویز مشرف نے محسن پاکستان کی تذلیل کی جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے امریکی خوشنودی کی خاطر قومی ہیرو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شرکت تک نہ کی۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا جس کا واضح ثبوت حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کی شرمناک شکست فاش ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی عسکری قوت و برتری محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مرہون منت ہے جبکہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن )ںنے ایٹمی دھماکے کیے اب جنگ جیت کر ثابت کر دیا کہ پاکستان کا دفاع ہم بہتر کرنا جانتے ہیں "

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button