پاکستاناہم خبریں

بھارت کا ‘نیا رویہ’ جنوبی ایشیائی امن کے لیے خطرہ، پاکستان کا عالمی برادری کو انتباہ

ہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اگر اس پر جارحیت مسلط کی گئی تو وہ ہر سطح پر اس کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار ہے

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان نے بھارت کی جانب سے حالیہ فوجی کارروائیوں اور اشتعال انگیز بیانات کو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو وہ اس کا جواب "مزید طاقت اور پختہ عزم” کے ساتھ دے گا۔
یہ بیان اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کانفرنس کے دوران جنیوا میں پاکستان کے مستقل نمائندے بلال احمد کی جانب سے سامنے آیا، جس میں انہوں نے جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف حملے ایک "نیا معمول” قائم کرنے کی کوشش ہیں، جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
"جنوبی ایشیا کو تعاون پر مبنی مستقبل کی ضرورت ہے”
سفیر بلال احمد نے کہا کہ جنوبی ایشیا کو محاذ آرائی کی نہیں بلکہ تعاون پر مبنی مستقبل کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اگر اس پر جارحیت مسلط کی گئی تو وہ ہر سطح پر اس کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر بھارت نے دوبارہ جارحیت کا راستہ اختیار کیا، تو اس کے نتائج اور ذمہ داری مکمل طور پر بھارت پر عائد ہو گی۔”
جموں و کشمیر میں حملے کا پس منظر
حالیہ کشیدگی کی جڑیں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پہلگام کے علاقے میں ہونے والے ایک حملے سے جڑی ہیں، جس کا الزام بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر عائد کر دیا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اس حملے کے چند دن بعد، بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کو پاکستانی سرزمین پر فضائی حملے کیے، جس میں پاکستان کے مطابق متعدد شہری ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی محاذ پر بھی شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔
بھارت کے بیانات پر شدید ردعمل
پاکستانی سفیر نے بھارتی قیادت کی جانب سے دئیے جانے والے بعض "جارحانہ اور اشتعال انگیز” بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیانات خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں اور عالمی برادری کو اس سلسلے میں فوری نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے 65 رکنی تخفیف اسلحہ فورم سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے اقدامات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب دو جوہری طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوں۔
عالمی برادری کی ذمہ داری
پاکستانی سفیر نے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کو ترجیح دی ہے، لیکن اگر اس کی خودمختاری اور سلامتی کو چیلنج کیا گیا تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔

جنگ بندی کے باوجود کشیدگی برقرار
دونوں ممالک کے درمیان بظاہر جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے، تاہم بیانات اور اقدامات کی سطح پر کشیدگی واضح طور پر موجود ہے۔ بھارتی میڈیا اور قیادت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جاری سخت بیانات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی جارحیت کا جواب سفارتی محاذ سے ہٹ کر بھی دیا جا سکتا ہے، اور اس حوالے سے اس کی تمام مسلح افواج مکمل طور پر تیار ہیں۔

تجزیہ
یہ کشیدگی ایسے وقت میں ابھری ہے جب خطہ پہلے ہی کئی دیگر چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، بشمول اقتصادی مسائل، ماحولیاتی بحران اور دہشت گردی کے خطرات۔ اس صورتِ حال میں پاکستان اور بھارت جیسے دو جوہری ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کی فوجی محاذ آرائی نہ صرف ان ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن نتائج لا سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button