پاکستان

’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ ایپ، مگر اوور بلنگ پھر بھی جاری؟

یہ ڈیجیٹل شفافیت کی طرف قدم تھا، جس میں صارف کو براہِ راست اپنے بلنگ سسٹم کا حصہ بنایا گیا

(سید عاطف ندیم-پاکستان): ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی آگ نے عوام کو پہلے ہی جھلسا رکھا ہے، ایسے میں اگر اوپر سے غلط ریڈنگ پر مبنی بل موصول ہو جائے، تو عام صارف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا فطری بات ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں حکومت یا متعلقہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین کی شکایات کو کم کرنے کے لیے جدید اقدامات کی طرف متوجہ ہوئیں۔
ان میں سے ایک اہم اقدام تھا: ’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ ایپ۔ اس ایپ کو متعارف کراتے وقت بڑے دعوے کیے گئے کہ اب صارف خود اپنے میٹر کی تصویر لے کر اپ لوڈ کرے گا، اور ریڈنگ اسی بنیاد پر لگے گی۔ یوں بجلی کے بلوں میں مبینہ دھوکہ دہی، اندازوں کی بنیاد پر بلنگ اور اوور چارجنگ کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوا؟
نیک نیتی یا دکھاوا؟
اس بات سے انکار نہیں کہ ’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ ایک اچھا تصور تھا۔ یہ ڈیجیٹل شفافیت کی طرف قدم تھا، جس میں صارف کو براہِ راست اپنے بلنگ سسٹم کا حصہ بنایا گیا۔ مگر عملی میدان میں اکثر معاملات محض نیک نیتی یا اچھی نیت سے نہیں چلتے، بلکہ مؤثر نظام، تربیت یافتہ عملے اور صارف دوست پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیشتر صارفین کی شکایات ہیں کہ:
ریڈنگ خود اپ لوڈ کرنے کے باوجود بل اندازے سے بنایا جاتا ہے۔
ایپ میں تصویر اپ لوڈ کرنے کے بعد بھی بعض اوقات پرانی ریڈنگ ہی درج رہتی ہے۔
تکنیکی خرابیاں، ایپ کا ہینگ ہونا یا اپ لوڈنگ میں مسائل عام ہیں۔
کئی علاقوں میں صارفین کو ایپ کے استعمال کی آگاہی ہی نہیں دی گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام صرف خانہ پری تک محدود ہے، جیسے صرف "دکھانے” کے لیے ایک نظام کھڑا کر دیا گیا ہو، تاکہ شکایات کا رخ وقتی طور پر موڑ دیا جائے۔
اوور بلنگ: صرف غلط ریڈنگ نہیں، ایک منظم مسئلہ
اوور بلنگ کا مسئلہ محض ریڈنگ کی خرابی سے نہیں، بلکہ پورے سسٹم کی کمزوریوں سے جڑا ہے۔ کئی کیسز میں صارفین کو اس بنا پر زائد بل بھیجے گئے کہ ان کا پچھلا بل "کم” تھا، یا "ادھوری” ریڈنگ کی بنیاد پر اوسط نکال کر بل دے دیا گیا۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ جب صارف کمپلین کرتا ہے، تو متعلقہ دفتر میں یا تو سنوائی نہیں ہوتی، یا اس عمل کو اتنا پیچیدہ اور طویل بنا دیا جاتا ہے کہ صارف ہار مان کر اضافی رقم ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
صارف کہاں جائے؟
ایک عام شہری جو پہلے ہی مہنگی بجلی، لمبے لوڈشیڈنگ کے اوقات اور ناقص سروسز سے پریشان ہے، اب وہی شخص ایپ انسٹال کرے، ریڈنگ اپ لوڈ کرے، پھر بھی اسے درست بل نہ ملے—تو سوال بنتا ہے: صارف کہاں جائے؟
حکومت اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ڈیجیٹل سلوشن صرف ایپ بنانے سے نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے ایک فعال، جواب دہ اور ذمہ دار نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔
تجاویز برائے اصلاحات
ایپ کے نظام کو بہتر، تیز اور صارف دوست بنایا جائے۔
ریڈنگ اپ لوڈ کرنے والے صارفین کو بلنگ سے پہلے ویریفکیشن کی اطلاع دی جائے۔
صارف کی اپ لوڈ کردہ ریڈنگ کو نظر انداز کرنے پر کمپنی کو باقاعدہ جواب دہ بنایا جائے۔
ایپ کے استعمال سے فائدہ اٹھانے والے صارفین کو چھوٹ یا مراعات دی جائیں تاکہ حوصلہ افزائی ہو۔
عملے کی تربیت اور نگرانی کا سخت نظام رائج کیا جائے تاکہ سسٹم میں اصلاح آئے۔
شفافیت صرف دعوے سے نہیں، نظام سے آتی ہے
’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ ایک اچھا آغاز تھا، لیکن اگر اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہ ہوا تو یہ بھی دیگر منصوبوں کی طرح عوام کے عدم اعتماد کی نذر ہو جائے گا۔ حقیقی تبدیلی تب آئے گی جب سسٹم شفاف، سادہ، قابلِ بھروسا اور صارف دوست بنایا جائے گا۔
فی الحال تو لگتا ہے کہ صارف کا میٹر بھی اُس کا، تصویر بھی اُس کی، مگر بل اور دردِ سر، کمپنی کی مرضی سے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button