
ترکی اور سعودی عرب کیسے شراکت دار بن گئے ؟ کیا ترکی-سعودی دوستی جاری رہے گی؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب دورے میں مملکت سعودی عرب، ترکی اور شام کی نذدیکیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
بیروت: سنی علاقائی طاقتوں ترکی اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ برسوں سے پیچیدہ اور اکثر متنازعہ تعلقات رہے ہیں۔ لیکن دسمبر میں پڑوسی ملک شام میں باغیوں کے حملے کے نتیجے میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے تعلقات نمایاں طور پر مضبوط ہو رہے ہیں۔
شام میں بشار الاسد کے زوال کے بعد ترکی اور سعودی عرب نے دمشق میں نئی حکومت کو مستحکم کرنے اور شام کو دوبارہ بین الاقوامی سطح پر لانے کے لیے کام کیا ہے۔
اس کے بعد یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ شام کے باغی لیڈر سے صدر بنے احمد الشارع نے جو پہلا بیرون ملک دورہ کیا وہ مملکت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض اور ترکی کے دارالحکومت انقرہ کا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب دورے میں مملکت سعودی عرب، ترکی اور شام کی نذدیکیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں
یہ نئی ترکی-سعودی دوستی اس ماہ کے شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران ظاہر ہوئی تھی، جب انھوں نے ریاض میں الشارع کے ساتھ ایک حیرت انگیز ملاقات کی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کمرے میں موجود تھے جب کہ ترک صدر رجب طیب اردوان فون کے ذریعہ ملاقات میں شریک ہوئے۔
اس کے بعد ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ شام پر عائد پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ولی عہد اور اردگان دونوں کو اس اقدام پر آمادہ کرنے کا سہرا دیا۔

قطر یونیورسٹی کے گلف اسٹڈیز سینٹر کے ایک ترک محقق سینم سینگیز کے مطابق، ماضی میں ترکی سعودی دشمنی کی علاقائی اور نظریاتی دونوں وجوہات رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نام نہاد درمیانی طاقتوں کی حیثیت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ درمیانی طاقت اس لیے کہ یہ ایسے ممالک ہیں جو عالمی سطح پر بااثر تو ہیں لیکن عظیم طاقتوں کا فقدان ہے،جس نے علاقائی غلبہ کے لیے مسابقت کو ہوا دی۔
اسلامی سیاست کے حوالے سے بھی دونوں کے نقطہ نظر مختلف ہیں۔ ترکی نے پین عرب اسلامی تحریک اخوان المسلمین کی حمایت کی ہے جبکہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے کچھ دیگر ممالک کی طرح اسے ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔
2011 کے عرب بہار کے پورے خطے میں پھیلنے کے بعد، ترکی نے عوامی بغاوتوں کی کھل کر حمایت کی جبکہ مملکت سعودی عرب محتاط رہی۔ تاہم، انقرہ اور ریاض دونوں نے شام کی 13 سالہ خانہ جنگی میں اسد مخالف دھڑوں کی حمایت کی۔
جب 2017 میں خیلجی ممالک سعودی عرب اور قطر کے درمیان سفارتی کھینچ تان ہوئی تو ترکی نے قطر کا ساتھ دیا۔
تعلقات میں سب سے زیادہ کشیدگی 2018 میں اس وقت آئی جب سعودی ہٹ اسکواڈ نے جمال خاشقجی کو قتل کر دیا۔ جمال خاشقجی ایک سعودی شہری اور امریکی رہائشی تھا جس نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے لیے سعودی حکومت کے بارے میں تنقیدی مضبون لکھا –
ترک حکام کا دعویٰ ہے کہ انھیں قونصل خانے کے اندر سے آڈیو ریکارڈنگ تک رسائی حاصل تھی۔ ترک حکام نے الزام لگایا کہ خاشقجی کو سعودی ایجنٹوں کی جانب سے ایک منصوبہ بند کارروائی میں قتل کیا گیا اور ان کی لاش کے دھار دار آرے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گیے۔ شہزادہ محمد نے تسلیم کیا کہ قتل ان کی نگرانی میں ہوا لیکن اس سے انکار کیا کہ انھوں نے اس کا حکم دیا تھا، حالانکہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ شہزادہ سلمان نے ہی ایسا کیا تھا۔

شامی صدر کے ساتھ محمد بن سلمان
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسد کے زوال اور شام میں نئی حقیقت نے امریکہ کے دو بڑے اتحادیوں کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے تھنک ٹینک کے ایک سعودی ماہر سیاسیات اور غیر مقیم اسکالر ہشام الغانم کہتے ہیں کہ یہ ایک محرک تھا جس نے ترکی سعودی تعلقات کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔ الغانم نے کہا کہ ان کے مفادات اسد کے بعد کے شام میں جڑے ہوئے تھے، اس لیے دونوں دشمنی سے عملی تعاون کی طرف منتقل ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ اور ریاض نے اسد کے تحت شام میں ایران کے وسیع اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا، جو اسد کی معزولی کے ساتھ ختم ہو گیا تھا، اور دونوں اب یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ شام میں تہران کی واپسی نہ ہو۔
شام میں ترکی اور سعودی عرب کے اپنے سیکورٹی خدشات بھی تھے۔ ترکی کی شام کے ساتھ اپنی طویل غیر مستحکم سرحد کی وجہ سے اور ترکی کے باغی کرد گروپس جو شامی کردوں کے ساتھ محفوظ پناہ گاہیں تلاش کر رہے ہیں۔
سعودی عرب خطے میں کیپٹاگون کی اسمگلنگ کے بارے میں فکر مند ہے۔ کیپٹاگون ایک ایمفیٹامین نما محرک ہے جو اسد کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
الغانم نے کہا، ایران کا مقابلہ کرنے، شام کے عدم استحکام کو سنبھالنے اور ایک سنی زیرقیادت حکومت ( بشارالاسد کے بعد) کی تشکیل کے لیے ترکی اور سعودی کی باہمی ضرورت نے شراکت داری کو فروغ دیا ہے۔
ریاض اور انقرہ نے حال ہی میں اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بھی قائم کیا ہے۔
شام میں اسد کے زوال کے بعد سے، اسرائیل نے فضائی حملے شروع کیے ہیں، شام کے اندر اقوام متحدہ کے گشت والے بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے اور شام کی مذہبی اقلیت دروز کے تحفظ کے لیے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔
چنگیز نے کہا کہ سعودی-ترکی کی مشترکہ لابنگ نے ہی امریکہ کے سب سے مضبوط اتحادی اسرائیل کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ کو شام پر امریکی پابندیاں ہٹانے کے لیے قائل کرنے میں مدد کی۔
چنگیز نے مزید کہا کہ آج، سعودی عرب اور ترکی کا خیال ہے کہ ماضی میں جو ایران نے کیا، اب شام میں وہی خلل ڈالنے والا کردار اسرائیل ادا کر رہا ہے۔
مغربی پابندیوں کے خاتمے کے بعد نئے شام میں تعمیر نو کے منافع بخش سودوں اور دیگر سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گئی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاض-انقرہ صف بندی جاری رہنے کا امکان ہے۔
چنگیز نے کہا کہ شام میں ریاض اور انقرہ دونوں غلبہ حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے، ترکی اور سعودی عرب دونوں کو ‘جیت’ کے نتائج کے لیے مل کر کام کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔
الغانم نے گرمجوشی کے تعلقات کے دیگر آثار کو نوٹ کیا، جن میں اس ماہ کے شروع میں طویل عرصے سے غیر فعال سعودی ترک رابطہ کونسل کی بحالی بھی شامل ہے، یہ ادارہ سیاسی، فوجی، انٹیلی جنس اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا ذمہ دار ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے سابق اہلکار اور سیاسی تجزیہ کار، سالم ال یامی نے کہا کہ شام کے نئے رہنماؤں کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے کے بجائے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ، اگر شام میں سعودی-ترک ہم آہنگی کامیاب ہو جاتی ہے تو۔۔۔اس سے شام کے استحکام اور اس کے نتیجے میں خطے میں امن و استحکام کی حالت میں کردار ادا کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔