
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا انتباہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے
حالیہ تنازع کے دوران کشیدگی صرف کشمیر کے خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اثر پورے پاکستان اور بھارت تک محسوس کیا گیا، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے
سنگاپور:پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ایک انٹرویو میں انتہائی اہم اور تشویشناک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مستقبل کی کشیدگی محض کشمیر جیسے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا دائرہ دونوں ملکوں کے دیگر حصوں تک پھیل سکتا ہے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا اس وقت سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے لیے موجود ہیں جہاں انہوں نے عالمی دفاعی اور سکیورٹی امور پر گفت و شنید کے دوران برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حالیہ تنازع کے دوران کشیدگی صرف کشمیر کے خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اثر پورے پاکستان اور بھارت تک محسوس کیا گیا، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عالمی برادری کا کردار
جنرل شمشاد نے خبردار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مؤثر بحران مینجمنٹ میکانزم کی عدم موجودگی، کسی بھی قسم کی کشیدگی کو مکمل جنگ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا:”بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کرنے کا وقت بہت محدود ہو سکتا ہے، اور میں یہ کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اُس سے بھی پہلے واقع ہو سکتی ہے جب عالمی طاقتیں ردعمل دینے کی تیاری کریں۔”
ان کے مطابق بحران کے دوران غلط فیصلے یا ’مس کیلکولیشن‘ ایک خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہے، اور حالیہ تنازعے میں اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، مگر یہ امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
مسائل کا حل جنگ نہیں، بات چیت ہے
پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت نے ایک بار پھر مذاکرات کو ہی واحد راستہ قرار دیا ہے۔ جنرل شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ:
"یہ مسائل صرف مذاکرات اور مشاورت سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں میدان جنگ میں حل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔”
انہوں نے کہا کہ جنگ کی صورت میں دونوں ممالک کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے اثرات خطے کے امن اور ترقی پر بھی پڑیں گے۔
فوجی تناؤ میں کمی: مثبت اشارہ
ایک اہم پیشرفت کے طور پر جنرل شمشاد مرزا نے انکشاف کیا کہ دونوں ممالک نے حالیہ کشیدگی کے بعد اپنی افواج کی سرحد پر تعیناتی میں کمی شروع کر دی ہے۔ ان کے مطابق:”ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں۔ دونوں فریقین نے فوجی اہلکاروں کی تعداد کم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔”
ریاستی بیانیہ اور میڈیا کا کردار
پاکستانی قیادت اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ میڈیا قومی بیانیہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ حالیہ بیانات میں آرمی چیف نے بھی کہا تھا کہ پاکستان نے انڈین میڈا کو "یادگار جواب” دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مؤقف کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔
سیاسی قیادت کا مؤقف
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حالیہ تنازعے میں پاکستان نے چار انڈین رافیل طیارے مار گرائے اور جنگ بندی کی درخواست بھارت کی جانب سے آئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے مکمل دفاعی تیاری کے ساتھ اپنی خودمختاری کا تحفظ کیا۔
فوجی قیادت کا دوٹوک پیغام
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کبھی کشمیر کو نہیں چھوڑے گا اور اس پر کسی قسم کی سودے بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بھارتی ردعمل کی کمی
روئٹرز نے اس انٹرویو کے حوالے سے بھارتی وزارت دفاع اور چیف آف ڈیفنس سٹاف کے دفتر سے تبصرہ مانگا، تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
آگے کا راستہ
جنرل ساحر شمشاد مرزا کے حالیہ بیان نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں امن کا قیام ایک نازک توازن پر قائم ہے، جسے برقرار رکھنے کے لیے صرف فوجی طاقت نہیں بلکہ سیاسی فہم، سفارت کاری اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کا انتباہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ایک محدود تنازع عالمی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔