
’سب کچھ تباہ ہو گیا‘: امریکہ کے ویزوں پر پابندی؛ پاکستانی طلباء کی امیدیں پارہ پارہ
تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ، مالی نقصان اور جذباتی صدمہ الگ
پاکستان
اسلام آباد – ایجنسیاں
پاکستان میں کئی لوگوں کے لیے امریکی ویزے منجمد ہونا ایک تباہ کن دھچکا ہے جو برسوں کی تعلیمی کوششوں اور عزائم کے بعد امریکہ جانے کے خواہش مند تھے۔ یہ بات متأثرہ درخواست دہندگان اور ایک تعلیمی مشیر نے جمعہ کو کہی۔
اس ہفتے کے شروع میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے حکم پر ہونے والی ویزا معطلی سے تمام دنیا سے نئے طلباء اور ویزا کے تبادلہ پروگرام رک گئے ہیں اور یہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت غیر ملکی شہریوں کی سکریننگ تیز کرنے کی وسیع پالیسی کا حصہ ہے جس میں سوشل میڈیا کی وسیع جانچ پڑتال بھی شامل ہے۔
نئی ہدایات کو حتمی شکل دیئے جانے تک امریکی سفارت خانوں کو انٹرویوز روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جنگ نے طلباء کی رائے تیزی سے تقسیم کر دی ہے اور واشنگٹن میں حکام نے کہا ہے کہ ویزا پابندی کا مقصد کیمپس کی سرگرمی میں اضافے کے درمیان ممکنہ سکیورٹی خطرات کی نشاندہی کرنا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے ناقدین نے کہا ہے کہ یہ اقدامات امتیازی ہیں اور ان سے ترقی پذیر ممالک کے ہونہار طلباء کے لیے امریکی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ بین الاقوامی طلباء کو طویل عرصے سے عالمی تحقیق اور اختراع میں امریکہ کے فائدے کے لیے ایک سنگِ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم محمد ابراہیم نے عرب نیوز کو فون پر بتایا، "میں نے ہمیشہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا اور مہینوں کی تیاری، محنت اور لگن کے بعد بالآخر مجھے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ لیکن جب میں اپنی زندگی کے اگلے بڑے مرحلے کی تیاری کر رہا تھا تو سب کچھ ختم ہو گیا۔” انہوں نے مزید کہا، ویزے پر ٹرمپ انتظامیہ کے اچانک پابندی عائد کرنے کی وجہ سے ان کے منصوبے رک گئے ہیں۔
ابراہیم نے کہا، یونیورسٹی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد داخلہ مل جانے کے باوجود وہ اب ایک غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں اور اب ان کے پاس انتظار، امید اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں حالانکہ جب سب کچھ اچانک ان کے قابو سے باہر ہو گیا۔
انہوں نے کہا، "یہ مایوس کن ہے۔ لگتا ہے میری زندگی کا ایک پورا سال ضائع ہونے والا ہے۔”
اسی شہر سے تبادلہ پروگرام کی امیدوار عنایہ مرتضیٰ نے کہا کہ نئی امریکی پالیسی ویزا انٹرویوز میں تاخیر اور طلباء کے تبادلہ پروگرام پر پابندی کا باعث بن گئی ہے جس سے وہ اور کئی دوسرے لوگ پریشان اور صدمے کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا، "امریکہ کا اعلیٰ تعلیمی نظام بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ البتہ ٹرمپ انتظامیہ کی حالیہ پالیسیاں انتہائی تباہ کن ہیں۔ پابندی نے انہیں جذباتی اور مالی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔”
شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ملک زلید حسن کے لیے ویزا کی معطلی ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ انہوں نے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کی تعلیم کے لیے داخلہ حاصل کیا تھا۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی ہزاروں ڈالر ٹیوشن اور رہائش کی فیس ادا کر چکے ہیں، انہوں نے عرب نیوز کو بتایا، "مجھے میرے پیسے واپس نہیں ملیں گے۔ میں نے بہت بڑی رقم کھو دی ہے۔”
انہوں نے جاری رکھی، "میں واقعی امید کرتا ہوں کہ امریکہ اس سلسلے میں کچھ کرے گا اور حالات بدل جائیں گے کیونکہ اس کا اثر کئی لوگوں پر ہوتا ہے۔”
لاہور میں ایجوکیشن کنسلٹنسی فرم یونی گریڈ کے ایک کونسلر محمد آیان اختر نے کہا کہ ویزا اپائنٹمنٹ پر پابندی نے کئی طلباء کو دلخراش صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، "اس میں ان کا مالی نقصان بھی شامل ہے اور سب سے بڑھ کر ان کا تعلیمی نقصان ایک بڑی تشویش کا باعث ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، "ٹرمپ انتظامیہ کو جلد از جلد پابندی ہٹا دینی چاہیے تاکہ سینکڑوں پاکستانی طلباء کو تعلیمی سال کے نقصان سے بچایا جا سکے۔”



