
چند روز کے بعد کچھ بدلے گا یا نہیں ؟…….ناصف اعوان
اب عمران خان کو باہر آجانا چاہیے کیونکہ ان کے کارکنان میں وہ جوش وجذبہ موجود نہیں رہا جو ایک برس پہلے تھا کیونکہ ان کی تربیت بھی ویسی نہیں ہوئی
اس وقت بانی پی ٹی آئی ایک قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ان پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے جن کے ثابت ہونے پر سزائیں سنا دی گئیں مگر پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے کارکنان ان سزاؤں اور مقدمات کو سیاسی قرار دے رہے ہیں لہذا وہ انہیں درست تسلیم نہیں کرتے ۔
اب جب خان کی رہائی کی خبریں آنے لگی ہیں اور پیشگوئیاں کی جانے لگی ہیں توہمیں حیرت ہوتی ہے کیونکہ ابھی تک مطلع ابر آلود ہے کچھ پابندیاں برقرار ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ وہ آزاد فضا میں نیلے آسمان کو نہیں دیکھ سکیں گے مگر چند تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ وہ رہا ہو رہے ہیں کاغذی کارروائی شروع ہو چکی ہے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے چاہنے والوں کو بلاوہ دے دیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروائیں تعداد ان کی لاکھوں میں بتائی جارہی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت جب اپنی عوامی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کرتی ہے تو پھر ریاست کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے مگر اگر ریاست عوامی طاقت کو مجتمع ہی نہ ہونے دے تو سیاسی منظر نامہ تبدیل نہیں ہوتا ہاں اگر روک ٹوک کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد باہر نکل آتی ہے تو پھر لازمی منظر بدل جاتا ہے ۔
بہرحال جوں جوں پانچ جون اور عید قرباں قریب آتے جارہے ہیں خان کی رہائی کی باتیں بھی تیزی سے گردش کرنے لگی ہیں ۔
سیانے کہتے ہیں کہ اب عمران خان کو باہر آجانا چاہیے کیونکہ ان کے کارکنان میں وہ جوش وجذبہ موجود نہیں رہا جو ایک برس پہلے تھا کیونکہ ان کی تربیت بھی ویسی نہیں ہوئی جیسی کسی منظم جماعت کی‘ کی جاتی ہے لہذا وہ جد وجہد کو زیادہ دیر جاری نہیں رکھ سکتے انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے لہذا وہ گومگو کی صورتحال سے دو چار ہیں جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے تو وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں وہ ستم بھی بہت برداشت کر چکے ہیں اپنے کاروبار بھی گنوا چکے ہیں لہذا مزید ان میں کچھ سہنے کی سکت نہیں لہذا خان کو اپنی حکمت تبدیل کرنا ہوگی کوئی لچک دکھانا ہو گی کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے کے تحت حاکم وقت سے معاملات طے کر نا ہوں گے ۔ہم کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ یار زندہ صحبت باقی مگر شاید ان کے نزدیک تاریخ میں زندہ رہنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے مگر اگر وہ باہر آرہے ہیں تو انہوں نے اپنے نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی لائی ہوگی اور لانی بھی چاہیے کیونکہ ملک کو ان کی ضرورت ہے کہ ہماری معیشت کی نیا ڈوب رہی ہے جسے بچانے کے لئے حکومت بھاری بھاری قرضے لے رہی ہے پھر وہ خود کو عوام کا خدمت گار ثابت کرنے کےلئے‘ نئے نئے منصوبے متعارف کروا رہی ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ منصوبوں کی جیسے بارش ہونے لگی ہے جس سے ایک لمحے کو حیرانی ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے مگر چونکہ اس نے بھاری قرضے لئے ہیں اور لئے جا رہے ہیں جس سے منصوبوں کی تکمیل ہو سکتی ہے مگر یہ کہنا بھی نا مناسب نہ ہو گا کہ غربت تب بھی ختم نہیں ہو گی بنیادی مسائل میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہو گی مہنگائی کے عفریت پر بھی قابو نہیں پایا جاسکے گا پایا جاسکا ہے کیونکہ تمام منصوبے غیر پیداواری ہیں اور ان کے لئے جو رقوم لی گئی ہیں ان پر سود بھی ادا کرنا ہے لہذا ان کی ادائی کے لئے نئے ٹیکس لگانا پڑیں گے بلکہ لگائے جا رہے ہیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں کی قسطیں ادا کی جا سکیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ان سے ایک ایک پیسا وصول کیا جائے۔ جاری کرپشن کو روکا جائے مگر اس کے لئے دل گردہ چاہیے ہو گا لہذا یہ چمن یونہی رہے گا۔
اُدھر ہمیں بھارت سُرخ سُرخ آنکھیں دکھا رہا ہے جبکہ پہلے اس نے اپنا انجام دیکھ لیا ہے اب پھر دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ہم پر دوبارہ کوئی حملہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کو ایسا کرنے کا کس بد بخت نے مشورہ دیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مودی کی عقل ماری گئی ہے وہ بیک وقت کئی محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لوگوں کو چاہیے کہ جتنا جلدی ہوسکے اس احمق و جنونی سے نجات حاصل کرلیں اس کا احتساب کریں وگرنہ وہ انہیں لے ڈوبے گا۔
اس تناظر میں وطن عزیز کو ایک ایسے سیاسی لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا جزبہ اور شعور رکھتا ہو لہذا خان کی رہائی لازمی ہے مگر یہ خیال بھی رہے قانونی رکاوٹیں بھی ہیں جنہیں دور کرنا ہو گا جو ہو بھی سکتی ہیں کیونکہ یہاں جب وہ چاہیں تو پلک جھپکتے میں وہ کچھ ہو سکتا ہے جو گماں میں بھی نہ ہو اس لئے لگ یہ رہا ہےکہ عید قرباں سے پہلے یا بعد میں کوئی سیاسی تبدیلی آسکتی ہے ؟
پی ٹی آئی چونکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے وہ یہاں ہی نہیں پوری دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے لہذا اگر وہ ملک کو بام عروج پر پہنچا سکتی ہے تو اسے آزمانے میں کوئی حرج نہیں تیس چالیس برس والی سیاسی جماعتوں کو جب آزمایا جا رہا ہے اور وہ مجموعی خوشحالی نہیں لا جاسکیں تو پی ٹی آئی کو بھی ایک بار اور موقع دے کر دیکھ لینا چاہیے وہ ایک محب الوطن جماعت ہے جس کا ثبوت حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران واضح طور سے پیش کیا گیا مگر بات وہی ہے کہ خان پر ان کے یو ٹرنی مزاج پر اعتماد بہت سوچ کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔ بہر کیف اب ایک دوسرے کو غدار کہنے کی گردان سے اجتناب برتا جائے سب ملک سے محبت کرتے ہیں ۔ ہاں البتہ کچھ لوگ مال پانی سمیٹنے کے چکر میں پڑ جاتے جنہیں قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے مگر غدار تب بھی نہیں کہنا چاہیے۔ ہمیں اس وقت قومی یک جہتی و اتحاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جنگ کسی دشمن سے ہو یا بھوک بیماری اور غربت کے خلاف جب تک عوام کو ساتھ نہیں لے کر چلا جاتا کامیابی نہیں ملتی لہذا تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہیے اور قائد کے پاکستان کو محفوظ اور خوشحال بنانے کی راہ پر گامزن کرنا چاہیے اگر ایسا نہیں سوچا جاتا اپنی اپنی دنیا میں محو رہا جاتا ہے تو مایوسی گہری ہوتی جائے گی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
حرف آخر یہ کہ پانچ جون آئے گا اور آکر گزر جائے گا اس میں کچھ بدلتا ہے یا نہیں دیکھتے ہیں !