انٹرٹینمینٹ

پاکستانی نوجوان کورین ثقافت کے شیدائی کیوں نظر آتے ہیں؟

نوجوانوں کا رجحان چند سال قبل عالمی وبا کے دوران ایک وقتی تفریح یا فرار کے طور پر شروع ہوا تھا، جو اب ایک گہرے جذباتی اور ثقافتی تعلق میں بدل چکا ہے۔

شازیہ محبوب 

پاکستانی نوجوانوں کی ایک مخصوص تعداد کورین ثقافت میں گہری دلچسپی لے رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کورین داستان گوئی نے پاکستانی نوجوانوں کو محبت، شناخت اور سماجی تعلق جیسے جذبات کو نئے انداز میں سمجھنے کا موقع دیا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اے لیول کی طالبہ ایمان ابرار نے بتایا کہ جنوبی کوریا کے ڈراموں اور فلموں میں خاندان کی اہمیت، طبقاتی تفریق، زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور نرم و ملائم رومانوی کہانیوں جیسے موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، وہ پاکستانی معاشرتی حقیقتوں سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامے ہر نسل کے لوگوں میں زیادہ مقبول ہیں۔

نمل یونیورسٹی، شعبہ کورین زبان، اسلام آباد
پاکستانی طالبہ ایمان ابرار کہتی ہیں کورین ڈراموں میں خواتین کے کردار مضبوط اور مہربان ہوتے ہیں، جبکہ مرد کردار ہمدردی، احترام اور جذباتی حساسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔تصویر: Shazia Mehboob

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں کورین ثقافت پر تحقیق کرنے والی طالبہ فضا زاہد کے مطابق یہ ڈرامے ایسے موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں جو پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے احساسات اور تجربات سے قریب تر ہیں جیسا کہ طبقاتی تفریق، خاندانی عزت، ممنوعہ محبت، حوصلہ مندی، اور خود کی تلاش۔

پاکستانی اور کورین ثقافت میں مماثلت

فضا زاہد کے مطابق پاکستانی اور کوریائی ثقافتوں میں مذہب اور زبان کے فرق کے باوجود خاندانی نظام، بزرگوں کے احترام اور قریبی رشتوں جیسی نمایاں مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہی مشترک اقدار کورین ثقافت پر تحقیق کو اہم بناتی ہیں اور کورین ڈراموں کو پاکستانی ناظرین کے لیے ایک مانوس اور جذباتی تجربہ بنا دیتی ہیں، جس سے دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ بھی خود کو کوریا سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

نمل یونیورسٹی، شعبہ کورین زبان، اسلام آباد
نمل یونیورسٹی کے شعبۂ کورین زبان کے سربراہ کے مطابق نمل فنکشنل کورسز کے ساتھ ساتھ کورین زبان میں ڈگری پروگرام بھی پیش کر رہا ہے۔تصویر: Shazia Mehboob

ایمان ابرار کہتی ہیں کورین ڈراموں میں خواتین کے کردار مضبوط اور مہربان ہوتے ہیں، جبکہ مرد کردار ہمدردی، احترام اور جذباتی حساسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسی خصوصیات جو عالمی میڈیا میں اکثر نظر نہیں آتیں، یہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں اور واضح طور پر ایک دیرینہ کمی کو پورا کر رہے ہیں۔

‘کمچی اور سارنگہے، اب اجنبی نہیں’

فضا زاہد کے مطابق چند سال قبل اگر کوئی "رمیون”، "کمچی” یا "سارنگہے” جیسے الفاظ مسکراہٹ کے ساتھ ادا کرتا تو زیادہ تر لوگ حیرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے۔ لیکن آج یہ الفاظ تعلیمی اداروں اور شہری ہوٹلوں سمیت روزمرہ کی گفتگو، خاص طور پر نوجوانوں کی بول چال میں عام حصہ بن چکے ہیں۔ فضا زاہد کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ ایک گہری ثقافتی تبدیلی کی علامت ہے، جو پاکستانی نوجوانوں میں کورین ڈراموں (K-Dramas) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔

ایک نئی کلچرل مارکیٹ

مزید برآں، فضا زاہد کہتی ہیں پاکستان میں کورین کھانوں اور زبان کے لیے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ایک نئی ثقافتی منڈی کو جنم دیا ہے۔ اس کا ثبوت ملک بھر میں کورین ہوٹلوں کی مقبولیت اور کورین اسکالرشپس و لینگویج کورسز کے لیے طلبہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔

نمل یونیورسٹی، شعبہ کورین زبان، اسلام آباد
کورین زبان کی ڈپلومہ کی طالبہ سندس اکرم کو کورین زبان میں دلچسپی ایک کورین ڈرامہ دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی۔تصویر: Shazia Mehboob

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) کے شعبۂ کورین زبان کے سربراہ احتشام حسین نےکہا کہ نمل فنکشنل کورسز کے ساتھ ساتھ کورین زبان میں ڈگری پروگرام بھی پیش کر رہا ہے۔ "ہماری پہلی فارغ التحصیل کلاس اب مارکیٹ میں متحرک ہے۔”

احتشام حسین نے مزید بتایا کہ پہلے ادارہ صرف ڈپلومہ کورسز فراہم کرتا تھا تاہم طلبہ میں کورین زبان اور خاص طور پر کورین ثقافت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث مکمل ڈگری پروگرام کا آغاز کیا گیا۔

‘کورین ڈراموں سے متاثر ہو کر پڑھائی شروع کی’

سندس اکرم نمل میں کورین زبان کی ڈپلومہ کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اُنہیں کورین زبان میں دلچسپی سن 2015 میں ایک کورین ڈرامہ دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی۔ اس تجسس نے انہیں نہ صرف کورین گانے سننے، خاص طور پر بی ٹی ایس کی موسیقی کی طرف مائل کیا بلکہ وقت کے ساتھ ان کی کورین ثقافت سے وابستگی بھی گہری ہوتی گئی۔ اسی دلچسپی کے تحت انہوں نے کورین زبان سیکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔

نمل یونیورسٹی، شعبہ کورین زبان، اسلام آباد
پاکستان میں کورین ہوٹلوں کی مقبولیت اور کورین اسکالرشپس و لینگویج کورسز کے لیے طلبہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپیتصویر: Shazia Mehboob
احتشام حسین کے مطابق کورین زبان اور ثقافت کی مقبولیت کی بڑی وجہ کورین تفریحی صنعت، خاص طور پر بی ٹی ایس جیسے بینڈز کی نوجوانوں میں مقبولیت ہے۔ یہی ثقافتی کشش طلبہ کو کورین زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔

تحقیق اور روزگار کے نئے دروازے

احتشام حسین کے مطابق کورین زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے کئی فوائد ہیں۔ طلبہ تحقیق، ترجمہ اور تشریح جیسے شعبوں میں جا رہے ہیں، لیکن زیادہ تر کورین ثقافت پر تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض طلبہ کوریا میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع کے خواہاں ہیں، جہاں "گلوبل کوریا اسکالرشپ (GKS)” جیسے پروگرامز بین الاقوامی طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کرتے ہیں۔ ادارہ طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے اور حال ہی میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ ان کے بقول، اب طلبہ "ایمپلائمنٹ پرمٹ اسکیم” کے تحت ملازمتیں حاصل کر کے اچھی تنخواہیں کما رہے ہیں اور اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button