
پاکستان: قریب انیس ٹریلین کا بجٹ، عوام کے لیے کیا؟
آدھے سے زائد بجٹ یعنی 9 کھرب روپے سے زائد کی رقم صرف سود کی ادائیگیوں میں چلی جائے گی۔
حکومت نے نہ صرف اس سال ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 1 کھرب روپے کرنے کی تجویز دی ہے، جو گزشتہ سال 1.4 کھرب تھا، بلکہ وفاقی تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں بھی بالترتیب 27 فیصد اور 32 فیصد کی نمایاں کٹوتی تجویز کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ راستہ ملک کو مزید انحصار کی طرف لے جائے گا اور عوام یا معیشت کے لیے کسی بہتری کا باعث نہیں بنے گا۔

معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ تعلیمی بجٹ میں کمی کا مطلب ہے کہ ملک کو بیرونی ماہرین پر انحصار کرنا پڑے گا، ’’جب حکومت اپنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے گی تو ہر معاملے میں غیر ملکی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی۔‘‘
بجٹ میں بھاری قرض ادائیگی سے متعلق ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ ملک کا آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف ا سٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانے کا کہتا ہے، جو اس وقت تقریباً 11 فیصد ہے اور یہی شرح قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ قومی خزانے پر بڑھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں جو آئی ایم ایف کے محتاج نہیں، وہاں شرح سود 5 فیصد سے بھی کم ہے۔
حکومت نے پانی اور بجلی کے شعبے کے بجٹ میں بھی 41 فیصد کمی کی تجویز دی ہے، جو پہلے 104 ارب روپے تھا۔ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کے لیے نہایت اہم پانی کے منصوبوں، جیسے دیامر بھاشا ڈیم، پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اس منصوبے کی تکمیل میں بیس سال لگ سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک کے ہر کونے سے پانی کی قلت اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور عوام کو ان دونوں معاملات میں ریلیف صرف اور صرف بڑے ڈیموں کی تکمیل سے ہی ممکن ہے کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے سستی بجلی صرف پانی کے ذریعے بنائی جاتی ہے۔
اس مشکل وقت میں بھی بہرحال حکومت نے پچاس ارب روپے پارلیمنٹيرینز کی اسکیموں کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام کے تحت برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں بجٹ کی ترجیحات کا محور معاشی ترقی کی بجائے سیاسی وقتی مفادات ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ مناسب غور و فکر کے بغیر اور قومی مفاد کو مدنظر رکھے بغیر بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام اب سول سرونٹس کی عیاشیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، لیکن حکومت ہر کام کر رہی ہے سوائے اس کے کہ ان ‘بابوؤں‘ کے غیر ضروری اور پرتعیش اخراجات میں کمی لائے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ اب بڑے ڈیم کی کتنی ضرورت ہے، چھوٹے ڈیم بھی ایک حل ہو سکتے ہیں، لیکن جس رفتار سے کام ہو رہا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیس سال لگ جائیں گے۔‘‘