جرمن شہر کولون میں دوسری عالمی جنگ کے تین ان پھٹے بم ملنے پر ایک بڑا علاقہ خالی کر لیا گیا ہے تاکہ ان بموں کو ناکارہ بنایا جا سکے۔
کولون شہر میں 1945 کے بعد سے اس انداز کے شہری انخلا کی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران گرائے گئے یہ تین بم امریکی ساختہ ہیں۔ اسی تناظر میں کولون شہر میں دریائے رائن کے کنارے واقعے ڈوئیٹس کے علاقے سے بیس ہزار افراد کا انخلا مکمل کیا جا رہا ہے۔
کولون شہر کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے، ”یہ انخلاء دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ تمام متعلقہ ادارے امید کرتے ہیں کہ بدھ کے روز بم ناکارہ بنانے کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔‘‘
اسی تناظر میں کولون شہر کے اس متاثرہ علاقے میں صبح آٹھ بجے تمام سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔
متاثرہ علاقوں سے ہزاروں افراد کو دیگر جگہوں پر ٹھہرایا گیا ہےتصویر: Björn Kietzmann
حکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فلیٹس کی تلاشی لے رہے ہیں کہخطرے کے زون میں واقع تمام مکانات خالی ہوں، جو کہ تقریباً 1000 میٹر کے دائرے پر مشتمل ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ یقینی بنانے میں کہ سب لوگ علاقہ چھوڑ چکے ہیں، کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
کولون شہر کے بم ڈسپوزل یونٹ کے سربراہ کائی کلشوسکی کے مطابق صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ہر سال دوسری عالمی جنگ کے 1,500 سے 2,000 غیر پھٹے بم دریافت ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 200 بم بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔
جرمنی کے کئی بڑے شہروں کی طرح کولون کو بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید بمباری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دوسری عالمی جنگ 8 مئی 1945 کو نازی جرمنوں کے ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ختم ہوئی۔
جب جرمن شہر ڈریسڈن راکھ کا ڈھیر بنا تھا
ڈریسڈن جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک تھا لیکن پھر ٹھیک ستّر برس پہلے دوسری عالمی جنگ میں اس پر اتحادی افواج نے اتنی شدید بمباری کی کہ پچیس ہزار انسان زندہ جل گئے اور شہر راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
بمباری، تباہی اور لوٹ مار
دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ فروری 1945ء کو انگلینڈ سے 245 لنکاسٹر طیارے روانہ ہوئے، جن کا رُخ جرمن شہر ڈریسڈن کی جانب تھا۔ شب 9 بج کر 39 منٹ پر شہر میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی موت کا کھیل شروع ہو گیا اور صرف 23 منٹ میں اس پر برسائے گئے بموں نے شہر کے مرکزی حصے میں ایک سے دوسرے سرے تک آگ لگا دی۔ برطانوی اور امریکی طیاروں کی بمباری نے شہر کے پندرہ کلومیٹر علاقے کو ملیا میٹ کر ڈالا۔
رائل چیپل کھنڈر میں تبدیل
وسط فروری 1945ء میں ہونے والی اس بمباری میں ڈریسڈن کے رائل چیپل (گرجا گھر) کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چھت اور گنبد منہدم ہو کر اندر جا گرے۔ یہ چرچ جرمن صوبے سیکسنی میں بننے والی بڑی کلیسائی عمارات میں سے ایک ہے۔ باقی جرمنی کی طرح یہاں بھی ملبہ ہٹانے کا کام بڑی حد تک خواتین نے انجام دیا۔
مارٹن لُوتھر بھی نہ بچ سکے
’چرچ آف آور لیڈی‘ کے عین سامنے ممتاز مصلح مارٹن لُوتھر کے لیے بنائی گئی یادگار واقع ہے۔ یہ یادگار بھی بمباری کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مارٹن لُوتھر کا یہ مجسمہ نامور مجسمہ ساز آڈولف فان ڈونڈورف نے 1861ء میں تخلیق کیا تھا لیکن اسے نصب کہیں 1885ء میں کیا گیا۔ لُوتھر نے 1516ء اور 1517ء میں ڈریسڈن کے دورے کیے تھے۔
بے دریغ بمباری کی ایک نمایاں مثال
ڈریسڈن میں باروک طرزِ تعمیر کا شاہکار ’چرچ آف آور لیڈی‘ 1726ء اور 1743ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ ستر سال پہلے کی بمباری سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ 1993ء تک اِسے اسی حالت میں ’بے دریغ بمباری کی ایک یادگار‘ کے طور پر باقی رکھا گیا تاہم تب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی چوٹی پر نصب سنہری صلیب برطانیہ کے ایک ایسے کاریگر نے تیار کی، جس کے والد نے پائلٹ کے طور پر اس شہر پر کی گئی بمباری میں حصہ لیا تھا۔
شہر کی نمایاں ترین علامت ایک نئی شان کے ساتھ
1994ء سے لے کر 2005ء تک ’چرچ آف آور لیڈی‘ کو دنیا بھر سے آنے والے عطیات کی مدد سے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً 130 ملین یورو لاگت آئی۔ اکیانوے میٹر بلند یہ چرچ اور اس کے آس پاس باروک طرزِ تعمیر میں بنائی گئی رہائشی عمارات صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں سیاحوں کی توجہ کا ایک نیا مرکز بن چکی ہیں۔
تباہی کے اثرات ڈھونڈے سے نہیں ملتے
آج کل سیاح ڈریسڈن کے مرکز میں واقع پیلس اسکوائر اور کیتھولک رائل چیپل کی سیر کرتے ہیں اور بحالی کے بعد نئی آن بان کے ساتھ کھڑی ان عمارات کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیکسنی بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کا صوبہ تھا تاہم پولینڈ کی بادشاہت کے تاج کا حقدار ہونے کے لیے آؤگسٹ ڈیئر شٹارکے نے کیتھولک عقیدہ اپنا لیا تھا اور اِسی لیے اُنہوں نے 1739ء اور 1754ء کے درمیان یہ کیتھولک عبادت گاہ بنوائی۔
نئی آن بان کے ساتھ
فروری 1945ء میں تباہ ہونے والی لُوتھر کی یادگار کی مرمت اور تجدید کا کام کہیں 1955ء میں عمل میں آیا۔ اس مجسمے کی بحالی کا عمل 2003ء اور 2004ء میں انجام پایا۔ تب تک یہ مجسمہ جنگ اور تباہی کی ایک یادگار کے طور پر ’چرچ آف آور لیڈی‘ کے سامنے پڑا رہا۔ آج کل یہ مجسمہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور شہر بھر کے نوجوان بھی اسی کے سائے میں ایک دوسرے سے ملتے اور یہاں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
ایلبے کا فلورنس
آج کا ڈریسڈن ایک بار پھر جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے ایلبے اس کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی باروک طرزِ تعمیر کی حامل عمارات کی وجہ سے ڈریسڈن کو ’ایلبے کا فلورنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈریسڈن کی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں یہ جرمنی کے بارہ بڑے شہروں میں سے ایک گنا جاتا ہے۔
2015ء میں 1945ء کی تباہی کا نظارہ
ڈریسڈن ہی میں مقیم ماہرِ تعمیرات یادگار عزیزی نے، جن کے والدین کا تعلق ایران سے ہے، گیس کی ایک بڑی سابقہ ٹینکی کے اندر دیواروں پر 1945ء کی تباہی کی تصاویر کچھ اس انداز سے آویزاں کی ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر انسان خود کو اُس سارے منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور انتہائی قریب سے دیکھتا ہے کہ کیسے ڈریسڈن شہر کا مرکز آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔
شہری انتظامی دفتر (آرڈنُگز امٹ) کے سربراہ رالف میئر کے مطابق متاثرہ علاقہ شہر کے مرکز سے دور نہیں ہے۔ کولون شہر کا مرکزی حصہ پورے یورپ کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انخلاء کے دائرے میں ایک ہسپتال، دو نرسنگ ہومز، کئی عجائب گھر اور نشریاتی ادارے آر ٹی ایل (RTL) کا ملکی ہیڈ کوارٹر شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ گو کہ یہ براہ راست متاثر نہیں ہو رہے، لیکن کولون کا تاریخی کیتھیڈرل اور شہر کا مرکزی ریلوے اسٹیشن رائن دریا کے مغربی کنارے پر واقع ہیں۔
یہ دونوں مقامات ہوہن سولرن پل (Hohenzollern Bridge) کے ذریعے ڈوئیٹس کے علاقے سے منسلک ہیں۔ یہ جرمنی کا مصروف ترین ریلوے پل ہے اور انخلاء کے دائرے میں آتا ہے۔ جرمنی کے قومی ریلوے آپریٹر ڈوئچے بان نے کہا ہے کہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مقامی اور طویل فاصلے کی ٹرین سروسز میں ”نمایاں رکاوٹوں‘‘ کی توقع ہے۔ ڈیوئیٹس ریلوے اسٹیشن، جو مقامی اور طویل فاصلے کی ٹرین سروسز فراہم کرتا ہے، فی الحال بند کر دیا گیا ہے۔