پاکستاناہم خبریں

پاکستانی سینیٹ نے ستائیسویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی، فیلڈ مارشل اور صدر کو تاحیات استثنیٰ دینے کی شق نے سیاسی ہلچل مچا دی

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ووٹنگ سے قبل کورم پورا کیے بغیر کارروائی آگے بڑھائی، جس سے پارلیمانی طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہوئی

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) نے پیر کے روز ملکی آئین میں ستائیسویں آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا۔ بل کے حق میں 64 ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بل حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں یہ ترمیمی بل پیش کیا گیا، جس کے دوران ایوان میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ووٹنگ سے قبل کورم پورا کیے بغیر کارروائی آگے بڑھائی، جس سے پارلیمانی طریقۂ کار کی خلاف ورزی ہوئی۔ تاہم ووٹنگ کے بعد چیئرمین سینیٹ نے نتیجہ سناتے ہوئے اعلان کیا کہ 64 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔

گیلانی نے وضاحت کی کہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی بیماری کے باعث ووٹنگ میں شریک نہیں ہو سکے جبکہ بطور چیئرمین انہوں نے خود اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔

اپوزیشن کے دو سینیٹرز نے بھی حکومت کے حق میں ووٹ دیا

ایوانِ بالا کی کارروائی میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر احمد خان نے بھی اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ووٹنگ کے بعد سیف اللہ ابڑو نے سینیٹ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، “میں نے حالیہ جنگ میں بھارت کے خلاف پاک فوج اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے کردار کی وجہ سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔”

حکومت کا موقف: "تمام مراحل مکمل، اتفاقِ رائے سے منظوری”

بل کی منظوری کے بعد سینیٹ میں قائدِ ایوان اور ڈپٹی وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے ایوان کو مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم پر بحث اور مشاورت کے تمام مراحل مکمل کیے گئے ہیں اور حکومت نے شفافیت کے ساتھ آئینی طریقۂ کار اپنایا ہے۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے بھی وضاحت کی کہ ایوان کی کارروائی "بلڈوز” نہیں کی گئی۔

اپوزیشن اور قانونی ماہرین کی شدید تنقید

اس ترمیم کی منظوری کے بعد قانونی اور سیاسی حلقوں میں شدید ردِعمل سامنے آیا۔ معروف آئینی ماہر اور پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے اس ترمیم کو "غیر جمہوری” اور "شخصی مفاد” پر مبنی قرار دیا۔

انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا،
“یہ سارا طریقۂ کار غیر جمہوری تھا۔ اس ترمیم کا مسودہ خفیہ رکھا گیا اور صرف ایک شخص کو غیر معمولی اختیارات دینے کے لیے یہ عمل کیا گیا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل جنرل کو تاحیات استثنیٰ دے کر حکومت نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی حقیقی عوامی حکومت قائم ہوئی، تو ان کے خلاف کوئی احتساب ممکن نہ ہو گا۔

اعتزاز احسن نے کہا، “ایسی آئینی ترمیم جو کسی فردِ واحد کے مفاد کا تحفظ کرے یا عوام سے مخفی رکھ کر منظور کی جائے، کبھی دیرپا نہیں رہ سکتی۔”

فیلڈ مارشل اور صدر کے لیے تاحیات استثنیٰ

ستائیسویں آئینی ترمیم میں صدرِ مملکت اور فیلڈ مارشل جنرل دونوں کو تاحیات فوجداری کارروائی سے استثنیٰ دینے کی تجویز شامل ہے۔ تاہم یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر صدر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ رکھتے ہیں، تو یہ استثنیٰ ختم تصور ہو گا۔

قبل ازیں، آئین کے مطابق صدر اور صوبائی گورنرز کو صرف اپنے عہدے کے دوران ہی استثنیٰ حاصل تھا۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے صدر کو استثنیٰ دینے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا،
“دنیا کے تمام ممالک میں سربراہانِ ریاست کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، اور پاکستان میں اس عمل میں کوئی قباحت نہیں۔”

تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے لیے استثنیٰ کی تجویز قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور ان کی ہدایت پر یہ شق بل سے واپس لے لی گئی۔

آرمی کمانڈ ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں

ترمیمی بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243 میں اہم ترامیم کی گئی ہیں، جن کے تحت وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر صدر آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کو مقرر کریں گے۔
بل کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 کو ختم کر دیا جائے گا، جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔

نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کی سربراہی بھی آرمی چیف کو سونپی جائے گی، اور یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اس عہدے پر صرف بری فوج سے تعلق رکھنے والا افسر تعینات ہو گا۔

آئینی و پارلیمانی ماہر احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس ترمیم کا یہ پہلو "عملی اور پیشہ ورانہ” طور پر درست فیصلہ ہے۔
ان کے مطابق، “چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ رسمی نوعیت کا تھا، اگر اس کی جگہ ایک متحد کمانڈ قائم کی جاتی ہے تو یہ افواج کے ڈھانچے کے لیے زیادہ مؤثر ہوگا۔”

آئینی عدالت اور ججوں کی تقرریوں میں ترامیم

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ترمیمی بل میں آئینی عدالت کے قیام سے متعلق شق میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

ان کے مطابق تمام صوبوں کی عدالتیں اس آئینی عدالت کا حصہ ہوں گی، اور ہائی کورٹ کا جج آئینی عدالت کے لیے نامزد ہو سکے گا۔ اس کے لیے اہلیت کی شرط سات کے بجائے پانچ سال رکھی گئی ہے۔

تاہم اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت کا اصل مقصد سپریم کورٹ کے کردار کو محدود کرنا ہے۔ ان کے مطابق، “حکومت آئینی عدالت کے نام پر سپریم کورٹ کو بے اثر کرنا چاہتی ہے، جس سے عدلیہ میں افراتفری پیدا ہوگی۔”

ججوں کے تبادلوں سے متعلق شق پر بھی تنازعہ

ترمیم کے مطابق، صدر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کسی ہائی کورٹ کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکیں۔ اگر کوئی جج اس تبادلے کو قبول نہ کرے، تو سپریم جوڈیشل کونسل کو 30 دن کے اندر اس کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، اور اس دوران وہ جج اپنے فرائض انجام نہیں دے سکے گا۔

مزید متنازعہ شقیں شامل نہ ہو سکیں

ذرائع کے مطابق، حکومت نے ابتدائی طور پر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی، تعلیم اور بہبودِ آبادی کی وزارتوں کی صوبوں سے واپسی اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں کمی سے متعلق ترامیم کو بھی بل کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی، مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باعث انہیں شامل نہیں کیا جا سکا۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا،
“تعلیم اور بہبودِ آبادی جیسے امور مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر اتفاقِ رائے سے حل کیے جا سکتے ہیں، اس پر آئینی ترمیم لانے کی ضرورت نہیں۔”

قومی اسمبلی میں منظوری متوقع

سینیٹ سے منظوری کے بعد اب ستائیسویں آئینی ترمیمی بل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جہاں پیر کی شام سے ہی اس پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، حکومت کو ایوانِ زیریں میں بھی مطلوبہ اکثریت حاصل ہے، لہٰذا بل کے جلد منظور ہونے کا امکان ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر یہ ترمیم قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو گئی تو یہ نہ صرف ملک کے عسکری اور عدالتی ڈھانچے کو ازسرِ نو تشکیل دے گی بلکہ پاکستان کے سیاسی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔


اہم نکات:

  • بل کے حق میں 64 ووٹ، مخالفت میں کوئی نہیں۔

  • فیلڈ مارشل اور صدر کو تاحیات استثنیٰ۔

  • چیئرمین جوائنٹ چیفس کا عہدہ 2025 میں ختم ہوگا۔

  • آئینی عدالت کا قیام اور ججوں کی تقرریوں میں تبدیلیاں۔

  • وزیر اعظم نے اپنے لیے استثنیٰ لینے سے انکار کیا۔

  • قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد صدر کے دستخطوں سے بل آئین کا حصہ بن جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button