
امیت شاہ اور بی جے پی قیادت کا تاریک سچ: اندرونی خلفشار، جرائم اور علاقائی خطرات کی بڑھتی ہوئی گھنٹیاں
ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ پر عرصہ دراز سے مختلف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، جن میں قتل، اغوا، غیرقانونی نگرانی اور ریاستی اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے کیسز شامل ہیں۔
تحقیقی رپورٹ | از: تجزیاتی ڈیسک وائس آف جرمنی
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے مرکزی چہرے امیت شاہ کی سیاسی قیادت پر اب سوالات صرف اپوزیشن یا عالمی اداروں تک محدود نہیں رہے، بلکہ خود جماعت کے اندر سے اُٹھنے والی آوازیں ان کے ماضی اور کردار پر سنجیدہ تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ایک طرف داخلی اختلافات اور دوسری جانب سنگین نوعیت کے الزامات — بی جے پی کی پرتشدد فطرت اور اس کے علاقائی خطرات کو اب چھپانا ممکن نہیں رہا۔
امیت شاہ: سیاست یا مجرمانہ وراثت؟
ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ پر عرصہ دراز سے مختلف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، جن میں قتل، اغوا، غیرقانونی نگرانی اور ریاستی اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے کیسز شامل ہیں۔
2005 میں گجرات میں "سہراب الدین انکاؤنٹر کیس” اور 2010 میں "تلوار خاندان کی نگرانی کیس” ان کی شہرت کا سیاہ پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کیسز میں قانونی پیچیدگیوں اور "سیاسی دباؤ” کے باعث وہ قانونی طور پر بری ہو چکے، لیکن حقائق اور گواہوں کے بیانات آج بھی کئی سوالات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
بی جے پی کا نظریاتی چہرہ: نفرت، طاقت اور خوف
بی جے پی کی سیاست کی بنیاد صرف ہندوتوا نظریے پر نہیں، بلکہ ریاستی طاقت کے پرتشدد استعمال پر بھی استوار نظر آتی ہے۔ امیت شاہ، جنہیں وزیراعظم نریندر مودی کا قریبی ترین ساتھی اور "مینجنگ ماسٹر مائنڈ” تصور کیا جاتا ہے، بی جے پی کی حکمت عملی میں عدلیہ، میڈیا، پولیس اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
اندرونی سطح پر کئی بی جے پی رہنما، جو خود ماضی میں امیت شاہ کے حامی رہے، اب ان کی آمریت پسندانہ قیادت، غنڈہ گردی اور مالیاتی بدعنوانیوں پر کھلے عام بات کر رہے ہیں۔
بی جے پی کے اندرونی خلفشار: ٹوٹتی ہوئی اکائی؟
2024 کے عام انتخابات میں توقعات کے برعکس کارکردگی اور اتر پردیش، مہاراشٹرا، مغربی بنگال میں سیاسی دھچکوں نے بی جے پی کی صفوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اندرونی حلقوں میں اختلافات اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ کئی سینئر لیڈران پارٹی پالیسیوں، امیت شاہ کی غیرجمہوری گرفت، اور وزارتی فیصلوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، اتر پردیش اور کرناٹک میں سابق وزرائے اعلیٰ اور گورنرز نے پارٹی میں "خوف و جبر کی فضا” کی شکایت کرتے ہوئے اسے "بی جے پی نہیں، امیت شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ” قرار دیا ہے۔
علاقائی خطرات: پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال پر اثرات
امیت شاہ کی زیرِقیادت بھارتی وزاتِ داخلہ نے نہ صرف بھارت کے اندر اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف سخت پالیسیاں اپنائیں، بلکہ بین الاقوامی سرحدوں پر بھی اشتعال انگیزی کو فروغ دیا۔
پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپیں، لائن آف کنٹرول پر حملے اور فالس فلیگ آپریشنز کی اطلاعات میں اضافہ۔
بنگلہ دیش کے ساتھ شہریت قانون (CAA) کے تحت کشیدگی۔
نیپال کے ساتھ متنازع نقشوں کا اجراء اور علاقائی خودمختاری پر سوال۔
ان سب اقدامات نے بھارت کو جنوبی ایشیا کے لیے ایک جارح ریاست کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں امن کی بجائے سیاسی استحصال اور عسکری غلبے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
عالمی تشویش: بھارت ایک "پولیس اسٹیٹ” کی طرف؟
امریکہ، یورپ، اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی رپورٹس بھارت میں جمہوری آزادیوں، میڈیا پر قدغن، اور اقلیتوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ بی جے پی کی قیادت خصوصاً امیت شاہ کو اکثر ان اقدامات کا معمار قرار دیا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے اسپیشل ریپورٹرز کی رپورٹس اس بات پر متفق ہیں کہ:
"بھارت ایک آزاد جمہوریت کے بجائے ایک متشدد قوم پرستانہ ریاست کی شکل اختیار کر رہا ہے، جہاں پالیسیوں کا تعین پارلیمان سے زیادہ وزارت داخلہ کے خوف سے ہو رہا ہے۔”
کیا جنوبی ایشیا بی جے پی کے زیرِسایہ غیر مستحکم ہوگا؟
بی جے پی کی قیادت، خاص طور پر امیت شاہ کی مجرمانہ ماضی اور حالیہ جارحانہ پالیسیوں کے تناظر میں، جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور ترقی کے خواب کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اگر بھارت کی سیاسی قیادت اپنی اندرونی صفوں میں اصلاح، شفافیت اور جمہوری رویہ نہ لا سکی، تو نہ صرف بھارت بلکہ پورا خطہ مذہبی انتہاپسندی، عدم برداشت اور علاقائی محاذ آرائی کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ رپورٹ مختلف ذرائع، عدالتی ریکارڈ، میڈیا رپورٹس، اور عالمی تجزیہ نگاروں کی آراء پر مبنی ہے۔ بی جے پی یا امیت شاہ کی طرف سے ان الزامات کی تردید یا وضاحت کی صورت میں اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جا سکتا ہے۔
کاپی رائٹ وائس آف جرمنی 2025