
دن بدلنے والے ہیں !….ناصف اعوان
اس کی وجہ عوام اپنے اپنے ملکوں کی سیاست اور نظام زندگی کو خوب جان چکے ہیں جو ان کی خوشحالی اور آسودگی کے حوالے سے موزوں و موافق نہیں رہے
چند روز پہلے بعض وی لاگرز نے پانچ جون کو بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے باہر آنے کا قطعی اعلان کر دیا جبکہ ہمیں نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ ابھی زنداں سے اپنی جان چھڑا لیں گے ۔
اب جب عدالت نے گیارہ جون تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی ہے تو خان کی رہائی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے وی لاگرز کیا سوچ رہے ہوں گے بتانے کی ضرورت نہیں مگر یہ طے ہے کہ خان کو باہر آنا ہے جلد یا بدیر کیونکہ ملکی و غیر ملکی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں جس میں نظام ہائے حیات بھی بدل رہے ہیں۔ مجموعی طور سے دنیا کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ عوام اپنے اپنے ملکوں کی سیاست اور نظام زندگی کو خوب جان چکے ہیں جو ان کی خوشحالی اور آسودگی کے حوالے سے موزوں و موافق نہیں رہے لہذا وہ ایک ایسے سیاسی و معاشی نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ان کو جینے کے لوازمات بہ احسن طریق مہیا کر سکے ان کے مطالبہ سے ہر حکومت ایک دباؤ میں نظر آتی ہے اس لئے خان کو تادیر قید میں نہیں رکھا جا سکتا پھر ان پر جو کیسز ہیں وہ ٹھوس بنیادوں پر نہیں بتائے جا رہے مگر چونکہ انہیں کچھ لوگ نا پسند کرتے ہیں اور سٹیٹس کو قائم رکھناچاہتے ہیں اور عمران خان حالت موجود کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا وہ پنپ نہیں رہے نگاہ کا مرکز نہیں بن رہے جو بن سکتے ہیں وہ حکومت میں ہیں اور عوام کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں کہ کبھی کوئی ٹیکس اور کبھی کوئی ٹیکس لگاتے چلے جا رہے ہیں جس سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں جینا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ان کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے ان کی کوئی حثیت ہی نہیں اس صورت میں خان کی مقبولیت میں اور اضافہ ہو رہا ہے ۔ عام آدمی کے نزدیک خان قدرے بہتر سوچ کے حامل ہیں اور ایک ایسے نظام کا نفاز چاہتے ہیں جو ملک کو بام عروج تک پہنچا دے مگر اربوں کھربوں کھا کر ڈکار بھی نہ مارنے والے ایسا نہیں چاہتے وہ غربت بے بسی آزردگی اور افلاس کو جوں کا توں رکھنے کے حامی ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ بد عنوانی ہوتی ہے تھانے پٹوار خانے اور سرکاری ادارے لوگوں کی کھال ادھیڑ تے ہیں کیونکہ اس سے ان کی حکمرانی میں کسی خلل کے پڑنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا ان عقل کے بیریوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایسے طرز عمل سے وہ عوام کی نظروں سے بہت نیچے آچکے ہیں وہ ان کی سیاست سے سخت اختلاف کرتے ہیں ۔ ان کے کیا عزائم ہیں ان سے کس قدر محبت ہے اور ان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ان سب کے بارے میں انہیں بخوبی علم ہے اور ایسا سوشل میڈیا کی بدولت ممکن ہوا ہے لہذا وہ عمران خان کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں ان کے صدقے واری جا رہے ہیں انہیں ان سے جدا کرنے کی کافی کوششیں کی گئیں کی جا رہی ہیں مگر وہ اہل اقتدار کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں لہذا انہیں جہاں کہیں عوامی اجتماع کاموقع ملتا ہے بھر پور انداز سے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں حالیہ سمبڑیال کے انتخابات میں انہوں نے بتا دیا دکھلا دیا کہ وہ خان کی محبت سے دستبردار نہیں ہوئے وہ ان کے ساتھ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خان کو رہائی ضرور ملے گی مگر تاریخ کا تعین کرنا مشکل ہے قطعی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لہذا وی لاگرز کو چاہیے کہ وہ پریشان عوام کو مزید پریشان نہ کریں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ٹامک ٹوئیاں مار کر انہیں خود سے متنفر نہ کریں۔
بہر حال کچھ کچھ سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں کہ دھیرے دھیرے سب قیدیوں کی ضمانتیں ہوں گی اگر خان معمولی سی بھی نرمی دکھائیں تو آئندہ صورت حال بدلنے کا قوی امکان ہے مگر وہ عدالتوں کے ذریعے سے آزادی چاہتے ہیں اور عدالتوں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ان کی راہ میں دیکھی ان دیکھی رکاوٹیں حائل ہیں لہذا جب وہ رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی تو ان کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا بھی موقع مل جائے گا ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہی خان نے پورے ملک میں پُر امن احتجاج کی کال دی ہے انہوں نے اپنے کارکنوں کو کہا کے کہ وہ جہاں بھی ہیں پُر امن احتجاج کریں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک قانون کی بالا دستی نہ ہو جائے ۔
ہمارے دوست جاوید خیالوی کے مطابق ”ہوسکتا ہے اندرون خانہ کوئی آزادی کے لئے متفقہ راستہ طے پا گیا ہو کہ عوامی دباؤ دکھانا لازمی ہو تاکہ کسی فریق کی سُبکی نہ ہو یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اگر واقعی مطلع صاف ہونے کا عندیہ دیا گیا ہوگا تو احتجاجیوں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا ہاں البتہ ہلکی پھلکی موسیقی ضرور ہو گی “
جاوید خیالوی کا خیال محض خیال نہیں یہاں کی سیاست بڑی پُر پیچ ہے کہ جو نظر آتا ہے ضروری نہیں وہی ہو کیونکہ کوئی بھی دھڑا اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں لہذا ممکن ہے ٹیکنیکل انداز سے سیاسی منظر نامہ تبدیل کیا جا رہا ہو مگر دوسری طرف تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چونکہ ملک سنبھالنا موجودہ سیاستدانوں کے بس میں نہیں رہا لہٰذا ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہونی چاہیے دوسرے لفظوں میں حقیقی سیاستدانوں کو آگے لایا جائے۔ عوام دوست سیاستدان پی ملک کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں مگر خان اور ان کی پارٹی کو کیسے مطمئن کیا جائے کہ وہ اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ واپس کیا جائے یا پھر نئے انتخابات کروائے جائیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر عام انتخابات میں بھی جھرلو پھر گیا تو وہ کیا کریں گے یا انہیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کہیں سے انہیں اس کی یقین دھانی کروائی گئی ہے اس کا اندازہ تو اس وقت ہو گا جب عام انتخابات ہوں گے فی الحال تو جو پانچ جون کو ہونا تھا وہ نہیں ہوا لہذا عمران خان کو عید قرباں جیل ہی میں گزارنا پڑی ہے اس کے باوجود کارکنوں کو امید کا دامن ہاتھ سے سےنہیں چھوڑنا کہ دن بدلتے رہتے ہیں اور یہ دن بھی بدلنے والے ہیں جو کسی کے روکے نہ رکیں گے ارتقائی عمل کو بھلا کوئی روک سکا ہے !