
عمران خان کی ملک گیر حکومت مخالف تحریک…..حیدر جاوید سید
اب قافلے اسلام آباد نہیں آئیں گے بلکہ ملک بھر میں احتجاج ہوگا (جلسے جلوس وغیرہ) سیاسی عمل میں شرکت احتجاج اور جلسے جلوس تحریک انصاف کا حق ہے
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان اب اپنی جماعت کے پیٹرن انچیف ہوں گے اپنے لئے اس منصب کا انتخاب انہوں نے خود کیا اور فیصلے سے گزشتہ سے پیوستہ روز ملاقات کرنے والے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور اپنی بہنوں کوآگاہ کردیا۔
بیرسٹر گوہر علی خان اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہو ئے عمران خان کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔ بتایا گیا کہ اب حکومت مخالف تحریک کی قیادت اڈیالہ جیل سے عمران خان خود کریں گے۔ علی امین گنڈاپور گڈ گورننس پر توجہ دیں گے۔
پیٹرن انچیف تحریک اور دیگر امور کے حوالے سے ہدایات براہ راست عمر ایوب خان کو دیں گے (عمر ایوب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں) بعض اخبارات کے مطابق ہدایات عمر ایوب اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کو دی جائیں گی۔ حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک غالباً عیدالاضحٰی کے بعد شروع ہوگی۔
غالباً اس لئے کہ ابھی اس تحریک کے آغاز کے لئے حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ اب قافلے اسلام آباد نہیں آئیں گے بلکہ ملک بھر میں احتجاج ہوگا (جلسے جلوس وغیرہ) سیاسی عمل میں شرکت احتجاج اور جلسے جلوس تحریک انصاف کا حق ہے،
ملاقاتوں، جیل میں دی گئی سہولتوں، بیان بازی اور دیگر معاملات کے حوالے سے جو سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں ان سہولتوں کے سہولت کار کسی سے مخفی نہیں۔ یہ وہی ہیں جو ماضی میں کہتے تھے ’’ہمیں نہیں معلوم ایئرایمبولینس میں لائیں یا اسٹریچر پر ملزم کو کل عدالت میں پیش کریں۔‘‘
عمران خان کے اپنے دور میں میاں نوازشریف، آصف زرداری وغیرہ کے بیانات اور انٹرویو پر پابندی لگائی تھی تب یہ کہا جاتا تھا کہ قومی مجرموں کا میڈیا پر کیا کام، کرپشن کے مقدموں میں سزا یافتہ عمران خان کے لئے ہر سہولت ہے کھانے پینے کے ذاتی مینو سے لے کر ملاقاتیوں کی منظوری دینے تک، یہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ سے لوگ آتے ہیں سرکاری پروٹوکول میں ان کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقاتیں کروائی جاتی ہیں۔
سہولت کاروں کے حوالے سے پردہ داری کا بس بھرم ہے یا پھر لوگ ’’پیکا ایکٹ عفی عنہ ‘‘ سے ڈرتے ہیں اس لئے نہیں بولتے ؟ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے کرپشن وغیرہ میں سزا یافتہ پہلے سابق وزیراعظم ہیں جن کے مضامین، انٹرویو، فرمودات، بیانات اور دھمکیاں وغیرہ ملکی و بین الاقوامی اخبارات میں شائع ، چینلز پر نشر اور سوشل میڈیا پر دوڑتے بھاگتے ہیں۔
اپریل کے آخر اور مئی کے اوائل میں ان سے ایک پاکستانی نژاد امریکیوں کے وفد نے جیل میں ملاقات کی تھی مئی میں ہی ایک امریکی بزنس مین تنویر خان نے جو شوکت خانم ہسپتال اور تحریک انصاف کے ڈونر بھی ہیں ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے وفد کی طرح غالباً تنویر خان کی ملاقاتیں بھی ناکام رہیں۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان اور پارٹی کے ذرائع کہتے ہیں ’’ان ملاقاتیوں کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے بلوایا اور عمران خان سے ملاقاتیں کروائیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ عمران خان ان کی شرائط پر کوئی معاہدہ کرلیں مگر عمران خان نے انکار کردیا۔‘‘
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے وفد اور تنویر خان نے الگ الگ رابطہ کیا اور درخواست کی کہ انہیں عمران خان سے ملنے دیا جائے۔
ملاقاتوں کے خواہش مندوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے پریشان ہیں کیونکہ مادر وطن کے ابتر حالات پر ان کا دل دکھتا ہے اس لئے وہ مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نژاد امریکی شہریوں کا وفد اپریل کے آخر میں پاکستان پہنچا اس نے متعدد شخصیات سے اوپر تلے ملاقاتیں کیں اس وفد کو پروٹوکول کے ساتھ اڈیالہ جیل لے جایا گیا وفد نے دوبار عمران خان سے ملاقات کی ایک ملاقات چار گھنٹے اور دوسری ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک جاری رہی اس دوسری ملاقات کے بعد وفد نے ایک عشائیہ میں شرکت کی اور پھر ہنگامی طور پر براستہ قطر امریکہ روانہ ہوگیا
دروغ برگردن راوی عشائیہ کے دوران وفد کے ارکان نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام عمران خان کی قید اور معاشی مسائل پر اپنے مفاہمتی فارمولے پر بات مکمل کرلی تو انہیں 2 آڈیوز سنائی گئیں ان اڈیوز کو سن کر وفد کے ارکان پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
راوی کے بقول ایک آڈیو تو وفد اور عمران خان کی ملاقات میں ہوئی گفتگو کے اس خاص حصے سے متعلق تھی جس میں سابق وزیراعظم چند شخصیات کے بارے میں آب زم زم سے دھلے الفاظ استعمال کررہے تھے۔
دوسری آڈیو دسمبر 2022ء میں مخدوم شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں عسکری شخصیت سے ملنے والے پی ٹی آئی کے پانچ ارکان پر مشتمل وفد کو سنوائی جانے والی آڈیو تھی۔
تنویر خان اور عمران خان کی ملاقات یا ملاقاتوں میں بھی لگتا ہے کہ معاملے طے نہیں پاسکا۔ بتایا جارہا ہے کہ عمران خان نے اپنے امریکی بزنس مین ملاقاتی سے کہا کہ ’’میری پارٹی نے کمزوری دیکھائی ورنہ یہ حکومت تین دن نہیں چل سکتی تھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر انتقامی رویہ اپنانے اور انہیں دبائو میں لانے کے لئے اپنی اہلیہ کو جیل میں ڈالنے کا الزام لگایا۔
اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے امریکی بزنس مین اور قبل ازیں امریکی وفد (پاکستانی نژاد امریکی شہریوں) سے اپنی ملاقاتوں کے دوران جیل میں سہولتوں کی کمی، ملاقاتوں پر پابندیوں، ذہنی دبائو میں لانے کے ہتھکنڈوں کے استعمال کی شکایت نہیں کی ہر دو سے انہوں نے یہی کہا کہ میرے ساتھ آج جو بھی کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل باجوہ ہے۔
بہرطور اب عمران خان جیل سے بیٹھ کر اس تحریک کی قیادت کریں گے جو جون کے وسط میں اگر شروع نہ ہوسکی تو پھر محرم الحرام کے ساتھ ہی کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں وہ محرم الحرام کے اجتماعات اور جلوسوں سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ حکومت ان کی جماعت کے خلاف کسی بھی کارروائی سے قبل کئی بار سوچنے پر مجبور ہو
کیونکہ تحریک کو دبانے کے لئے کی جانے والی کارروائیوں کو محرم الحرام کے اجتماعات و جلوسوں کے خلاف کارروائی سمجھا جائے گا اس طور تحریک انصاف کو بڑی عوامی ہمدردی مل سکتی ہے۔
کیا واقعی عمران خان محرم الحرام کے ساتھ ہی اپنی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا ڈول ڈالیں گے؟
اگر ایسا ہے تو کیا حکومت صورتحال سے نمٹ پائے گی؟ ہر دو سوال بڑے اہم ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا دائو کھیلنے جارہے ہیں۔ یہ دائو احتجاجی تحریک کو ملک گیر سطح پر منظم کرنے اور چلانے کا ہے اس تحریک کے لئے پیٹرن انچیف نے اپنے نائب کے طور پر عمر ایوب خان کا انتخاب بھی یقیناً سوچ سمجھ کر کیا ہے عمرایوب پاکستان کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے ہیں شاید عمران خان کے ذہن میں یہ ہو کہ حکومت اپنے خلاف چلنے والی تحریک کی جیل سے باہر قیادت کے خلاف کارروائی اگر کرے گی بھی تو پاکستان کے اولین مقامی کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے سوچنا پڑے گا۔
عین ممکن ہے ان کا یہ اندازہ درست ہو لیکن کیا خود عمر ایوب کسی احتجاجی تحریک کے قائد کے طور پر میدان عمل میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟
یہ سوال بھی غور طلب ہے اس سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان کی حکومت مخالف تحریک کا بیانیہ کیا ہوگا؟