یورپ

جرمنی میں کہیں کہیں کورونا کا نیا ویریئنٹ، ڈبلیو ایچ او

جرمنی میں صحت عامہ کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے مطابق جرمنی میں یہ قسم پہلی بار مارچ کے اواخر میں سامنے آئی تھی اور اب تک صرف کہیں کہیں ہی ظاہر ہوئی ہے۔

افسر اعوان ڈی پی اے کے ساتھ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق عالمی سطح پر اور خصوصاﹰ ایشیا کے کچھ حصوں میں پھیلنے والے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم جرمنی میں زیادہ نہیں پھیلی۔

جرمنی میں صحت عامہ کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے مطابق جرمنی میں یہ قسم پہلی بار مارچ کے اواخر میں سامنے آئی تھی اور اب تک صرف کہیں کہیں ہی ظاہر ہوئی ہے۔

اس انسٹیٹیوٹ کی طرف سے جاری کر دہ بیان کے مطابق، ”یہاں کسی رجحان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ کووڈ کیسوں کی تعداد کم ہے اور اسی سبب ان کی سیکوئنسنگ (کورونا وائرس کی جانچ) بھی کم ہو رہی ہے۔‘‘

چین میں ایک لیبارٹری میٰں ایک خاتون سائسندان
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فی الحال منظور شدہ کووڈ 19 ویکسینز این بی 1.8.1 کی وجہ سے ہونے والی شدید بیماری سے بھی تحفظ فراہم کریں گی۔تصویر: Tang Dehong/Costfoto/picture alliance

سوئٹزرلینڈ کی باسل یونیورسٹی سے منسلک بائیو فزیسٹ (حیاتیاتی طبیعیات دان) رچرڈ نیہر کا کہنا ہے کہ یہ قسم (جرمنی میں) زور پکڑے گی یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دیگر اقسام کس طرح پھیلیں۔ یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ این بی 1.8.1 موجود رہے گا  لیکن یہ نسبتاﹰ زیادہ اہم نہیں ہو گا۔‘‘

آٹھ جون کو ختم ہونے والے ہفتے میں، جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے کووڈ کے 698 نئے کیسز کا اندراج کیا۔ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں یہ معمولی اضافہ ہے لیکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ تعداد زیادہ نہیں ہے۔ تاہم محدود ٹیسٹنگ کی وجہ سے امکان ہے کہ بہت سے انفیکشن کا پتہ ہی نہ چل رہا ہو۔

نکاسی کے پانی میں وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ

نکاسی یا گندے پانی کی جانچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران SARS-CoV-2 وائرس کی سطح میں معمولی اضافہ ہوا ہے مگر یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔

بائیوفزیسٹ نیہر کے مطابق، نئی این بی 1.8.1 قسم مشرقی ایشیا میں غالب ایکس ڈی وی 1.5 ویریئنٹ سے ہی نکلی ہے۔

SARS-CoV-2 وائرس کا تھری ڈی نمونہ
نکاسی یا گندے پانی کی جانچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران SARS-CoV-2 وائرس کی سطح میں معمولی اضافہ ہوا ہے مگر یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔تصویر: Mis/IMAGO

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے نیشنل ایڈمنسٹریشن آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ مئی کے آخر تک یہ نئی قسم چین میں غالب قسم تھی۔

باسل یونیورسٹی سے منسلک بائیو فزیسٹ رچرڈ نیہر کا مزید کہنا تھا، ” دیگر ویریئنٹس کے مقابلے میں اس ویریئنٹ کی فریکوئنسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا این بی 1.8.1 اس حوالے سے زیادہ متعدی ہے کہ اس کا انفیکشن دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ثانوی انفیکشن پیدا کرتا ہے۔‘‘

زیادہ سنگین بیماری کا کوئی ثبوت نہیں

چینی حکام نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ این بی 1.8.1 زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ بات ڈبلیو ایچ او کے اس تخمینے سے مطابقت رکھتی ہے کہ جن ممالک میں یہ قسم بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے وہاں کیسز اور اسپتالوں میں داخل ہونے کی تعداد میں اضافے کے باوجود، فی الحال اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ دیگر پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فی الحال منظور شدہ کووڈ 19 ویکسینز این بی 1.8.1 کی وجہ سے ہونے والی شدید بیماری سے بھی تحفظ فراہم کریں گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button