کالمزپیر مشتاق رضوی

سرحد کا جناح اور جنوبی پنجاب کے محسن ۔۔۔!!پیر مشتاق رضوی

نئی نسل تحریک پاکستان کے رہنما اور قائد اعظم کے دست راست سردار عبدالرب نشتر کے نام اور ان کی قومی خدمات کو مکمل طور پر بھلا چکی ہے

جنوبی پنجاب تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے تقسیم ہند کے فورا بعد نوزائیدہ مملکت خداداد پاکستان معروضی حالات کا شکار ہوگئی کیونکہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعدپاکستان پر مسلط حکمرانوں نے آمرانہ طرز حکومت اور ملوکیت کا راستہ اختیار کیا لیکن قائد اعظم کے ساتھیوں نے پاکستان کے جمہوری مستقبل کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں سردار عبدالرب نشتر بھی قائد کی وفادار اور مخلص ساتھیوں میں سے ایک تھے انہوں نے ملک میں جمہوری نظام رائج کرنے کے لیے وزارتوں اور اعلی’ عہدوں کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اصولی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تحریک پاکستان کے رہنما سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے پہلے مسلمان گورنر تھے اگرچہ ان کے گورنرشپ کا دورانیہ 2.اگست 1949ء تا 24 نومبر1951ء تک بڑا مختصر تھا لیکن اس دوران انہوں نے انقلابی اقدامات کیے اور جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی کا سنگ بنیاد رکھا سردار عبدالرب نشتر ایک صاحب بصیرت سیاستدان تھے اور اعلی’ پایہ کے قانون دان تھے وہ جنوبی پنجاب کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اس لیے قیام پاکستان کے چند سال بعد سردار عبدالرب نشتر نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے دو بڑے اہم منصوبوں کا اغاز کیا جنوبی پنجاب کے اس وقت کے اضلاع رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ ار پار واقع تھے اس سلسلے علاقے کی سماجی معاشی تقاضوں کے پیش نظر دریائی سفر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے سردار عبدالرب نشتر کوٹ مٹھن کے قریب دریاۓ سندھ پر 3.دسمبر 1949ء کو اپنے دست مبارک سے کشتیوں کے پل "نشتر پل” کا سنگ بنیاد رکھا سردار عبدالرب نشتر برصغیر کے صوفی بزرگ خواجہ غلام فرید رحمت اللہ علیہ سے بھی بڑی عقیدت رکھتے تے خواجہ غلام فرید رحمت اللہ علیہ کے ہزاروں مریدین متقدین اور زائرین کی آمد رفت کے لیے بھی نشتر گھاٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دریا کے دونوں اطراف کے عوام کی سماجی ضرورت میل جول کاروبار بلکہ دفاعی نقطہ نظر سے نشتر گھاٹ ایک اہم پیشرفت ثابت ہوا لیکن بدقسمتی سے بعد میں انے والے حکمرانوں نے نشتر گھاٹ پر پختہ پل کی تعمیر کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہ کیے نشتر گھاٹ پر پختہ پل کی تعمیر عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا تقریبا 75 سال بعد سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں کوٹ مٹھن کے نزدیک دریائے سندھ پر پختہ پل کی تعمیر کی گئی اور اس پل کا نام’ نشتر پل” کی بجائے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پل رکھا گیا تحریک پاکستان کے نامور رہنما سردار عبد الرب نشتر کی قومی خدمات کو پس منظر میں ڈال دیا گیا حالانکہ زندہ قومیں اپنے مشاہر اور ہیروزکو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ نئی نسل تحریک پاکستان کے رہنما اور قائد اعظم کے دست راست سردار عبدالرب نشتر کے نام اور ان کی قومی خدمات کو مکمل طور پر بھلا چکی ہے حالانکہ سردار عبدالرب نشتر جنوبی پنجاب کے محسن ہیں اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ ماہ کوٹ مٹھن میں نشتر گاٹ کے سنگ بنیاد کی یادگار کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا کوٹ مٹھن میں واقع نشتر چوک کے نام کو بھی لوگ بھول چکے ہیں ایک عشرہ قبل سردار عبد الرپ نشتر کی نواسی محترمہ مینہ گل سیلابی علاقوں میں امدای اوع سماجی سرگرمیوں کے سلسلے جب راجن بور آئیں اس دوران معروھ سماجی راہنما جمشید فرید نےانہیں کوٹ مٹھن میں نشتر پل کے بارے بتایا اور نشتر پے کی یادگار کا وزٹ کرایا تو انہیں انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی اس وقت ان کے والد اور سردار عبدالرب نشتر کے داماد بلال احمد صاحب پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے آجکل محترمہ گل مینہ NAV Tech اسلام آباد کی چیرپرسن ہیں واضح رہے کہ
راجن پور ڈپٹی کمشنر شفقت اللہ مشتاق کی خصوصی کاوشوں سے راجن پور کی تاریخی اورجغرافیائی اہمیت قومی سطح پر اجاگر کیا گیا اس حوالے سے راقم کی درخواست پر ڈپٹی کمشنر شفقت اللہ مشتاق نے نشترگاٹ کی یادگار کی تعمیر نو کرائی اور حب الوطنی کا ثبوت دیا اس سلسلے اسسٹنٹ کمشنر راجن پور جمیل احمد خان نے بھی قابل تعریف کردار ادا کیا جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے سردار عبدالرب نشتر کا ایک اور اہم کارنامہ ملتان میں” نشتر ہسپتال” کا قیام ہے انہوں ن نشتر ہسپتال کا سنگ بنیاد 1951ء میں رکھا بعد ازاں یہ ہسپتال پنجاب کا پہلا میڈیکل کالج بھی بنا نشتر ہسپتال کے قیام سے جنوبی پنجاب اندرون سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات حاصل ہوئیں نشتر ہسپتال پاکستان کے بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے
گورنر کی حیثیت سے سردار عبدالرب نشترکی تقرری کئی حوالوں ایک تاریخی واقعہ تھا۔ ماہنامہ ‘قومی زبان نے” لکھا: ’سردار صاحب سوا سو سال کے بعد پنجاب کے پہلے مسلمان گورنر ہیں۔‘ اور ایک مثالی گورنرتھے اس زمانے کے ایک ممتاز اخبار ‘پرتاب’ نے لکھا کہ سرحد کے جناح عبدالرب نشتر ہیں۔ ‘سرحد کے جناح” کا خطاب ان کی شخصیت پر کئی اعتبار سے سجتا ہے لیکن ان کے مزاج کی ایک اور خوبی انھیں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں بھی شامل کرتی ہے اور یہ خوبی ہے، شاعری۔ انھوں نے نوجوانی میں ہی شعر کہنا شروع کر دیے اور برصغیر ممتاز شاعر اکبر الہٰ آبادی سے اصلاح لی۔ ان پر استاد کا ظریفانہ رنگ تو نہ چڑھ سکا، اقبال کی فکر غالب آگئی۔ ان کے کئی اشعار اقبال کے رنگ میں ہیں۔
"ترے وعدے پہ یقین کس طرح آئے ہم کو
لب اقرار میں پنہاں ترا انکار بھی ہے
کہتی ہے دشمن ایمان سے یہ تیغ ترکی
تری سرکار سے بڑھ کر کوئی سرکار بھی ہے
رنگ لائے گا یہ فریاد طوفاں نشتر
چشم خوں بار بھی ہے اور آہ شرر بار بھی ہے
“شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اس سیاست دان کی اقتدار سے محرومی کے بعد بھی عوام سے گھلنے ملنے کی عادت برقرار رہی۔انہوں مشرقی اقدار کی پاسداری کرتےہوۓ انگریز بودباش اور انگریزی لباس مکمل طور ترک کردیا تھا
جبکہ وہ بکاؤ مال نہیں تھے
اس شخص کو دنیا اُن کے كاونچے شملے والی پگڑی اور ’تلوار مارکہ‘ مونچھوں سے پہچانتی تھی اور انھیں سردار عبد الرب نشتر کے نام سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ سردار عبدالرب نشتر نے پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں انگریز فوج کی طرف سے چلائی جانے والی گولی کے واقعے کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور اس پاداش میں انہیں ایک سال کے لیے جیل بھی جانا پڑا وہ ایک دلیر اور جرآتمند حریت پسند تھے انہوں نے کانگرس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا وہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ بااعتماد اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے انہوں نے اردو کی ترویج اور ترقی کے لیے بھی نا قابل فراموش قومی خدامات سر انجام دیں وہ ایک عظیم۔محب وطن راہنما اور اعلی’ پایہ کے شاعر بھی تھے معروف ادیب خواجہ حسن نظامی نے لکھا: ‘نشتر قد وقامت کے اعتبار سے قطب صاحب کی لاٹھ اور رنگ و روغن کے لحاظ سے تاج محل ہیں۔'”
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے ” آمین”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button