
اہل صحافت! کرنی میڈیا منیجری تے فیر رونا کیوں؟……حیدر جاوید سید
بہرحال سہیل وڑائچ نے محکمانہ بندشوں کا توڑ یہ نکالا کہ سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر صحافت کے کوچے میں ’’فل‘‘ ٹائم کودے پڑے۔
ایک نجی چینل کے عید پروگرام میں کسی فضا علی نامی اداکارہ نے سہیل وڑائچ، مجیب الرحمن شامی، ارشاد بھٹی اور خود پروگرام کے میزبان کامران شاہد پر جملے کسے۔ کسے گئے جملے یہاں لکھنے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
جن صاحبان پر اداکارہ نے جملے کسے ان میں سے شامی صاحب کو لگ بھگ نصف صدی سے جانتا ہوں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شامی صاحب ایک میڈیا ہائوس (پرنٹ میڈیا) کے مالک ہیں ماضی میں پٹرول پمپ بھی تھا اب ہے کہ نہیں یہ انہیں معلوم ہوگا۔ وسیع اختلافات (ذاتی اور نظریاتی) کے باوجود بزرگ کے طور پر قابل احترام ہیں۔
ارشاد بھٹی آجکل سینئر تجزیہ نگار ہیں مختصر عرصے میں اس ’’مقام اولیٰ‘‘ تک کیسے پہنچے یہ وہ جانتے ہیں۔ صدرالدین ہاشوانی یا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید، چوتھی جو شخصیت واقف ” رمز ہائے دلبری ” تھی وہ تھے ہمارے دوست مرحوم و مغفور ارشاد احمد امین اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
کامران شاہد ماضی کے معروف فلمی ہیرو اداکار شاہد کے فززند ارجمند ہیں ٹی وی پروگرام کی میزبانی کے راستے الیکٹرانک میڈیا کا چہرہ بنے۔
سہیل وڑائچ صحافت سے قبل استاد تھے لاہور کے ایک بڑے بلکہ معروف تعلیمی ادارے میں پڑھاتے تھے جن برسوں میں ان پر محکمہ تعلیم نے ملازمت کے ساتھ صحافت کرنے پر قدغن لگائی ان برسوں میں صرف لاہور میں نصف درجن لیکچرار اور اسسٹنٹ و فل پروفیسر صاحبان اخبارات میں کالم لکھتے اور صحافت فرماتے تھے۔
تبرکاً دو نام لکھے دیتا ہوں اولاً عطاء الحق قاسمی اور ثانیاً ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم۔
بہرحال سہیل وڑائچ نے محکمانہ بندشوں کا توڑ یہ نکالا کہ سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر صحافت کے کوچے میں ’’فل‘‘ ٹائم کودے پڑے۔
مرحوم استاد محترم اکرم شیخ کے بعد جو چند صحافی انٹرویو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ان میں سہیل وڑائچ سرفہرست ہیں۔
نجی چینل کے عید پروگرام میں جو بھلے برے جملے اداکارہ نے پروگرام میں موجود افراد بالخصوص سہیل وڑائچ پر اچھالے انہیں لے کر پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر گھمسان کا ’’رن‘‘ جاری ہے۔
سہیل وڑائچ کے علم و کلام صحافتی خدمات کا ذکر کرنے والے اداکارہ کے لتے لے رہے ہیں۔ اداکارہ کے ہم خیال (یہ سو فیصد انجمن محبانِ اخیرالمومنین اڈیالوی شریف کے پرجوش حامی ہیں ) کہہ رہے ہیں کیا غلط کیا وڑائچ نے بھی تو عمران خان کو ایک کالم میں ڈونکی راجہ لکھا تھا۔
بعض عمرانی مردو زن ان میں وحدتی انقلابی بھی شامل ہیں اداکارہ فضا علی کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہیں پارہے۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ
"اس ملک میں لوگوں کی توہین کرنا مخالفین کی مائوں بہنوں بیٹیوں کے خلاف بازاری جملے کسنا اور انہیں بے شرمی کے ساتھ دھندے والیاں قرار دینے کا شرعی و قانونی اور سیاسی حق صرف انصافیوں کو حاصل ہے کیونکہ مخصوص گملوں میں اگائی گئی یہ مخلوق اپنے دیوتا سمان لیڈر سمیت گنگا نہائی ہوئی ہے ” ۔
میں 1985ء میں لاہور آیا تھا یعنی 40 برس پہلے ان برسوں میں کبھی کسی سیاسی نجی یا پریس کلب کی تقریب میں سہیل وڑائچ کی زیارت اور ملاقات سے محروم رہا ہوں۔ اب بھی شوق ملاقات ہرگز نہیں شامی صاحب کے ساتھ ان کے ادارے میں ایڈیٹوریل ایڈیٹر کے طور پر کچھ عرصہ کام کیا الحمدللہ وہ میرے مقروض ہیں تین ماہ کی تنخواہوں کے، مجھے پتہ ہے کہ وہ ” سفید پوش آدمی ہیں نہیں بن سکی ہوگی یہ معمولی سی رقم ورنہ 23 برسوں میں بھیج ہی دیتے ” ۔
معاف کیجئے گا تمہیدی سطور طویل ہوگئیں۔
ویسے آپ یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ میں اداکارہ فضا علی کی جملہ بازیوں سے متاثر ہونے والے افراد بالخصوص مجیب الرحمن شامی یا سہیل وڑائچ کی ہمدردی اور دفاع میں کالم لکھنے جارہا ہوں وہ دونوں خود لکھنا جانتے ہیں کم از کم مجھ سے اچھا لکھتے ہیں۔ اس لئے اپنا مقدمہ اگر لڑنا ہوا تو وہ خود لڑلیں گے۔ مجھے اداکارہ کے دفاع میں لنگر لنگوٹ کس کر سوشل میڈیا کے پانی پت کے میدان میں اترنے والے مجاہدین زیرتعمیر ریاست مدینہ کے ارشادات وغیرہ پر بات کرنی ہے۔
یہ کسی کو ’’رنڈی ان منڈی‘‘ کہیں تو یہ الہامی جملہ قرار پاتا ہے۔ ” حاجیانی گشتی ” بھی شریعت عمرانی کے حساب سے اعزازی لقب ہے۔
گزشتہ روز ڈاکٹر عبداللہ خان نامی ایک یوتھیے نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر ایک خاتون ٹی وی میزبان کے بارے میں پوسٹ لگائی وہ صحافی نہ ہوتی تو کیا ہوتی‘‘ اس پوسٹ پر کمنٹس کرنے والوں نے خاتون ٹی وی میزبان کے بارے میں جو کمنٹس کئے انہیں پڑھ کر ایک سوال نے دستک دی، سکیورٹی اسٹیٹ کے مالکان نے ذاتی جماعت اور نجی لشکر بنانے پر وسائل اور وقت برباد کرکے اس ملک سے کس بات کا انتقام لیا جو انہیں پال رہا ہے؟ ( ویسے ایسا ایک جملہ کسی انصافن کیلئے لکھ دوں تو انصافی تتے توے پر رقص کرتے دیکھائی دیں گے )
اس عمرانی لشکر کے بڑے چھوٹے سب کا خیال یہ ہے کہ جو عمران کا مخالف اور ناقد ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا ٹائوٹ ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ اس تبدیلی اور قیام ریاست مدینہ کا دشمن ہے جس کی خاطر عمران خان جیل میں ہے۔
مرد صحافیوں کو (مخالف آراء رکھنے و الے) یہ ٹائوٹ دلا نیچ اور نجانے کیا کیا کہتے لکھتے ہیں خاتون صحافیوں کو دھندے والی کہتے نہیں تھکتے اور جن کال گرلز اور وچولوں کو جنرل فیض حمید کی سرپرستی میں عمران خان کے دور میں صحافی بنا کر مسلط کیا گیا وہ ان کے نزدیک مجاہدین صحافت ہیں۔
ویسے ہمارے یہاں ہر سیاسی جماعت نے اپنے اپنے مجاہدین صحافت، جمہوریت، آزادی اظہار، سول سپرمیسی پال پوس رکھے ہیں ہر جماعت کا ناقد صحافی جمہوریت کا دشمن ہے۔
مرحومہ و مغفورہ جماعت اسلامی جب زندہ تھی اس کے مخالف صحافی اسلام دشمن قرار پاتے تھے۔ متروک ترقی پسندوں نے خود پھر تنقید کرنے والوں کو امریکی گماشتے قرار دیا۔
نیلے آسمان کے نیچے ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب ترقی پسندوں نے امریکہ یورپ سپانسرڈ اداروں میں ملازمتیں کرلیں اور جماعت اسلامی نے امریکی قیادت میں لادین سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کے جہاد میں پوری توانائیوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالِ خیروافر مقدار میں کمایا۔
باردیگر معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی چلی گئی اور کچھ زیادہ دور نکل گئی۔ اس ملک میں اب صحافی خال خال ہیں زیادہ تر میڈیا منیجرز ہیں۔ اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعت اور لیڈر کو بیت اللہ کی اینٹ ثابت کرتی مخلوق کے ساتھ ان کے مخالفین جو بھی سلوک کرتے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
ہم ایسے بدقسمت ملک میں جی رہے ہیں جہاں ایجنسیوں کے سربراہ اخبارات کا ایڈیٹر مقرر کرواتے ہیں ملک کی دو بڑی ایجنسیاں لوگوں کو ملازمتیں د لواتی اور ملازمتوں سے نکلواتی آئی ہیں کال گرلز اور بارٹینڈر ہی نہیں زندہ گوشت اور بوتل کی دروازے پر سپلائی دینے والے صحافی بناکر مسلط کئے گئے
اور پولیس ٹائوٹ صحافیوں کے لیڈر بن بیٹھے۔
صحافی کالونیوں نے بعض صحافیوں اوران کے خاندانوں کو پراپرٹی ڈیلر بنادیا۔ ہمارے چار اور ہی یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
قلم مزدوروں کی حالت یہ ہے کہ ان کے اداروں میں ویج بورڈ ایوارڈ کا نفاذ کیا ہونا تھا کم سے کم مقرر کی گئی ماہانہ سرکاری اجرت تک نہیں ملتی زیادہ تر ادارے (میڈیا ہائوس) ملازمین کی ایک سے تیین ماہ کی اجرت نیچے رکھ کر تنخواہ دیتے ہیں۔
آج کسی معروف ٹی وی میزبان کو آف ایئر کردیا جائے تو بھونچال آجاتا ہے لیکن راتوں رات 100 کے لگ بھگ قلم مزدور کسی ادارے سے نکال دیئے جائیں تو ٹائوٹ قیادتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
یہ جو ٹی وی چینلوں پر بیٹھے اور اخبارات میں احتساب کے لمبے لمبے بھاشن دیتے لکھتے ہیں ان میں سے اکثر کے اثاثے ان کے خاندانی پس منظر اور سماجی حیثیت سے کہیں زیادہ ہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر کیوں ہم ایک کو گالی دیئے جانے پر چپ رہتے ہیں اور دوسرے کو گالی دیئے جانے پر بلبلا اٹھتے ہیں؟
صحافت کے کوچے میں موجود قلم مزدوروں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ آج جن حالات کا انہیں سامنا ہے اس کے "ہم ” خود کتنا ذمہ دار ہیں؟