
غزہ میں قحط کا خطرہ: اسپین کی جانب سے فضائی امداد، مصر کی اپیل اور عالمی برادری کی تشویش
"غزہ پٹی میں قحط پوری انسانیت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور اسے روکنا ایک اخلاقی فرض ہے۔"
غزہ / میڈرڈ / قاہرہ (بین الاقوامی رپورٹرز) — اسپین نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ رواں ہفتے غزہ پٹی میں 12 ٹن خوراک فضائی ذرائع سے بھیجے گا، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان 21 ماہ سے جاری جنگ کے نتیجے میں قحط کا خطرہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ اسپین کی جانب سے یہ قدم یورپی ممالک کی طرف سے غزہ کے لیے فضائی امداد کی ایک نادر مثال ہے، کیونکہ اب تک یہ امداد زیادہ تر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک فراہم کر رہے تھے۔
اسپین: غزہ میں قحط انسانیت کے لیے شرمندگی ہے
اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز، جو غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے سخت ناقد سمجھے جاتے ہیں، نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا:
"غزہ پٹی میں قحط پوری انسانیت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور اسے روکنا ایک اخلاقی فرض ہے۔”
سانچیز کے مطابق، یہ امدادی پرواز جمعے کے روز اردن سے روانہ ہوگی اور اسپین کی فضائیہ اس مشن کی قیادت کرے گی۔ اسپین کی وزارت دفاع نے بتایا کہ یہ کارروائی مارچ 2024 میں کی گئی ایک مشابہہ امدادی مہم کے طرز پر ہوگی، جس میں 26 ٹن خوراک بھیجی گئی تھی۔
غزہ: دو کروڑ افراد بحران کی لپیٹ میں
عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ غزہ میں 20 لاکھ سے زائد افراد کو خوراک، پینے کے پانی، طبی امداد اور دیگر بنیادی سہولیات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ WHO کے مطابق، صورتحال اس قدر نازک ہے کہ دو مارچ 2025 کو اسرائیل کی جانب سے دوبارہ مکمل ناکہ بندی کے بعد غذائی قلت "انتہائی خطرناک سطح” تک پہنچ چکی ہے۔
امداد کی راہ میں رکاوٹیں اور ناکہ بندی
اگرچہ اسرائیل نے مئی کے آخر میں جزوی طور پر امدادی اشیاء کی اجازت دینا شروع کی، لیکن ہیومینیٹیرین ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مقدار ضرورت سے کہیں کم ہے۔ ان کے مطابق، فضائی امداد ایک علامتی اقدام تو ہے، مگر قحط جیسے بحران سے نمٹنے کے لیے یہ ناکافی ہے۔
اقوام متحدہ کا موقف: بھوک کو ہتھیار نہ بنائیں
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"تنازعہ بھوک کو غزہ سے سوڈان اور دیگر علاقوں تک پھیلا رہا ہے۔ ہمیں بھوک کو کبھی بھی جنگی ہتھیار کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔”
اسرائیل کا ردعمل: اقوام متحدہ پر جھوٹے الزامات کا الزام
دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:
"یہ تمام دعوے جھوٹے بہانے اور بہتان تراشی پر مبنی ہیں۔ اسرائیل جانچ کے بعد ہی امداد کی اجازت دیتا ہے تاکہ دہشتگرد گروپوں کو فائدہ نہ پہنچے۔”
مصری صدر السیسی کی اپیل: جنگ فوری روکی جائے
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے پیر کے روز ایک جذباتی ٹیلی وژن خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی کہ وہ غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے فوری مداخلت کریں۔
انہوں نے کہا:
"صدر ٹرمپ ہی وہ شخصیت ہیں جو اس جنگ کو رکوانے، امداد پہنچانے اور اس اذیت کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔”
السسی نے بتایا کہ رفح کراسنگ پر سینکڑوں امدادی ٹرک موجود ہیں، لیکن اسرائیلی افواج کی اجازت کے بغیر یہ آگے نہیں جا سکتے۔ رفح کراسنگ، جو کبھی زندگی بچانے والی امداد کا اہم ذریعہ تھا، گزشتہ ایک سال سے بند ہے کیونکہ اسرائیل نے اس کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔
مصری کردار پر سوالات
اگرچہ السیسی نے زور دیا کہ مصر امداد میں رکاوٹ نہیں بن رہا، تاہم لبنان اور لیبیا میں مصری سفارت خانوں کے باہر مظاہرے ہوئے، جن میں مصر کی مبینہ شمولیت پر احتجاج کیا گیا اور رفح کراسنگ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔
امریکہ کی پوزیشن: بات چیت جاری، حل باقی
صدر ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ:
"جنگ بندی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں لڑائی ختم کرنی ہوگی۔”
انہوں نے بتایا کہ قطر، مصر اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں مذاکرات ہو چکے ہیں، لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ امریکہ نے 60 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے اور دیگر ممالک سے بھی تعاون کی اپیل کی ہے۔
علامتی اقدامات یا سنجیدہ کوششیں؟
غزہ میں انسانی بحران کی شدت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اور اگرچہ اسپین، مصر اور امریکہ جیسے ممالک امداد اور سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں، تاہم امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں، سیاسی پیچیدگیاں اور عسکری تناؤ اس مسئلے کو دن بدن سنگین بنا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امدادی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری، بھرپور اور منظم امدادی اقدامات نہ کیے گئے تو غزہ ایک مکمل انسانی تباہی کی طرف بڑھ سکتا ہے — جہاں قحط صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک حقیقت بن جائے گا۔