
بھارت میں اسرائیل کے حق میں ریلی، مودی سرکار کی مسلم دشمنی اور اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی بے نقاب
وزیراعظم نریندر مودی کا اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے رابطہ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اب صرف اسرائیل کا خاموش شراکت دار نہیں بلکہ ایک فعال حمایتی بن چکا ہے
وائس آف جرمنی نیوز ڈیسک
بھارت میں حالیہ دنوں میں اسرائیل کے حق میں منعقد کی گئی ایک متنازعہ ریلی نے نہ صرف ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، میں شدید تشویش پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی و خفیہ گٹھ جوڑ کا بھی پردہ چاک ہوا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے منعقد کی گئی اس ریلی میں اسرائیل کی حمایت اور حماس کے خلاف کھلے عام نعرے بازی کی گئی۔ نعرے لگائے گئے: "جو حماس کا یار ہے، وہ ہمارا غدار ہے، اسرائیل ہم تمہارے ساتھ ہیں۔”
اسرائیل کی کھلی حمایت، مسلمانوں سے کھلی دشمنی
ریلی کے مناظر اور نعروں نے یہ واضح کر دیا کہ بھارت میں ایک خاص طبقہ اسرائیل کے جنگی جرائم، خصوصاً فلسطینی عوام پر ظلم و ستم، کی کھلی حمایت کر رہا ہے۔ یہ رجحان اس وقت مزید خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے جب اسے حکومتی سرپرستی یا خاموشی حاصل ہو۔ مودی سرکار کی طرف سے اس ریلی کی مذمت نہ کرنا، اور وزیراعظم نریندر مودی کا اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے رابطہ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اب صرف اسرائیل کا خاموش شراکت دار نہیں بلکہ ایک فعال حمایتی بن چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کی جانبداری اور عالمی خاموشی
حیران کن طور پر بھارتی مین اسٹریم میڈیا نے اس ریلی کو مثبت انداز میں پیش کیا، جبکہ فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ بھارت میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی ہندوتوا نظریے کے زیر اثر ہے، اور اسرائیل کی حمایت میں چلائی جانے والی اس مہم نے اس جانبداری کو مزید واضح کر دیا ہے۔ عالمی برادری، خصوصاً مسلم ممالک، کی اس پر خاموشی بھی افسوسناک ہے۔
ایران اور غزہ پر حملے، مودی حکومت کی خاموشی
اسرائیل کی جانب سے نہ صرف غزہ بلکہ ایران میں بھی حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ مودی حکومت کی جانب سے ان حملوں پر نہ کوئی مذمت کی گئی، نہ ہی کسی قسم کی سفارتی تنقید سامنے آئی۔ یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت اسرائیلی پالیسیوں کی درپردہ حمایت کر رہی ہے۔
بھارت-اسرائیل تعلقات: ایک خفیہ گٹھ جوڑ
بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی تعاون، انٹیلیجنس شیئرنگ، اور اسلحہ کی خرید و فروخت کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن اب یہ تعلق صرف سیکیورٹی یا معیشت تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک نظریاتی گٹھ جوڑ میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہندوتوا اور صہیونیت کے درمیان یہ نظریاتی ہم آہنگی دنیا کے دو بڑے مذہبی اقلیتی گروہوں – مسلمانوں اور فلسطینیوں – کو ایک جیسا دشمن سمجھنے پر مبنی ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی
ایسی ریلیاں اور بیانات بھارت میں موجود مسلمانوں کے لیے ایک واضح پیغام بن کر سامنے آئے ہیں۔ اگر ریاستی سرپرستی یا خاموشی ایسی سرگرمیوں کو تقویت دیتی رہی، تو بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے حالات مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عمل نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین بلکہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کے بھی خلاف ہے۔
عالمی برادری کا ردعمل
اب یہ وقت ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم ممالک، بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں۔ صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ بھارت میں بسنے والی مسلم اقلیت بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ حاصل کر سکے۔
نتیجہ: بھارت میں اسرائیل کی کھلی حمایت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ مودی حکومت کی خاموشی اور خاموش تائید نے اسے مزید تقویت دی ہے۔ اگر عالمی سطح پر بروقت ردعمل نہ دیا گیا، تو یہ نظریاتی اتحاد دنیا کے امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔