
ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے، آئی اے ای اے کی خاموشی پر ایران برہم – تعاون محدود کرنے کا اعلان
آئی اے ای اے، جو کہ ان تنصیبات کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے، ان حملوں پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ اس نے کسی قسم کا رسمی ردعمل تک ظاہر نہیں کیا
تہران – ایران نے ہفتے کے روز ایک اہم اور سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے (International Atomic Energy Agency) کے ساتھ تعاون کو محدود کر رہا ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے باوجود آئی اے ای اے کی طرف سے مسلسل خاموشی، ایجنسی کی ساکھ اور غیر جانبداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ایرانی مؤقف: "ایجنسی کی خاموشی بلاجواز ہے”
ایران کے نائب وزیرِ خارجہ کاظم غریب آبادی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ آئی اے ای اے، جو کہ ان تنصیبات کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہے، ان حملوں پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ اس نے کسی قسم کا رسمی ردعمل تک ظاہر نہیں کیا۔
انہوں نے کہا،
“اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ یہ پرامن مقامات حملے کی زد میں آئیں اور ایجنسی خاموش رہے۔”
“ایران ایجنسی کے ساتھ مزید تعاون نہیں کرے گا جیسے پہلے کرتا تھا۔”
اسرائیلی جارحیت اور عالمی اداروں کی خاموشی
ایران کی متعدد جوہری تنصیبات، جنہیں پرامن توانائی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی فضائی حملوں اور سائبر حملوں کی زد میں آ چکی ہیں۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، اور عالمی ایٹمی توانائی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
ایران کی تنقید صرف اسرائیل پر ہی نہیں بلکہ اُن بین الاقوامی اداروں پر بھی ہے جو انسانی حقوق، جوہری تحفظ اور بین الاقوامی قانون کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ایسے حملوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون میں کمی: کیا اثرات ہوں گے؟
ایران کے اس فیصلے سے بین الاقوامی جوہری معائنہ کاری اور نگرانی کے عمل پر براہِ راست اثر پڑے گا۔ ایران اب آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو وہ سطح کی رسائی فراہم نہیں کرے گا جو پچھلے سالوں میں معمول کا حصہ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے ایران کے جوہری پروگرام کے شفاف ہونے پر سوال اٹھ سکتے ہیں، لیکن تہران کا مؤقف ہے کہ جب تحفظ ہی میسر نہیں، تو شفافیت کی ضمانت دینا ایک طرفہ بوجھ ہے۔
مغربی ردعمل اور ممکنہ سفارتی کشیدگی
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ اور یورپی یونین، ایران کے اس فیصلے پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس فیصلے سے ایران اور مغرب کے درمیان جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی کی امیدیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ کچھ حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون میں کمی کے بعد ایران پر نئی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جبکہ دیگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کا مؤقف اصولی ہے اور اسرائیلی جارحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
خطے میں کشیدگی کا نیا باب؟
ایران کے اس فیصلے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حالیہ مہینوں میں غزہ، شام، اور ایران پر حملے کیے گئے ہیں، جبکہ ایران بارہا خبردار کر چکا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ ایران کی دفاعی حکمت عملی اب اس سمت میں جاتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ نہ صرف فوجی بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بھرپور ردعمل دے گا۔
ایران کا آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون محدود کرنے کا فیصلہ ایک سنجیدہ عالمی سفارتی پیش رفت ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایران بین الاقوامی اداروں سے انصاف اور غیر جانب داری کی توقع رکھتا ہے، نہ کہ خاموشی اور جانبداری کی۔ اگر عالمی ادارے اور مغربی قوتیں واقعی مشرق وسطیٰ میں استحکام چاہتی ہیں تو انہیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھی اسی شد و مد سے آواز اٹھانا ہو گی جیسے وہ دیگر ممالک کے خلاف کرتے ہیں۔ بصورت دیگر، ایک اور بڑا تنازعہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔