
دشمنی کی تاریخ کا نیا خونی باب……سید عاطف ندیم
1967 میں ایران نے امریکہ کے 'Atoms for Peace' پروگرام کے تحت جوہری تحقیق کا آغاز کیا، اور شاہ ایران کے دور میں اسرائیل کے ساتھ مضبوط اقتصادی و سکیورٹی روابط تھے
اسرائیل اور ایران کے درمیان دہائیوں پر محیط کشیدگی ایک نیا اور خطرناک موڑ لے چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے دارالحکومت تہران پر فضائی حملے نے صرف دونوں ممالک کے درمیان تنازع کو گہرا نہیں کیا، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
تازہ ترین اسرائیلی حملوں میں ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنس دان مارے گئے۔ ایران نے ان حملوں کو "جارحیت کی بدترین مثال” قرار دیا ہے، جبکہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے "براہ راست خطرہ” سمجھتا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے تعلقات کبھی دوستانہ تھے۔ 1967 میں ایران نے امریکہ کے ‘Atoms for Peace’ پروگرام کے تحت جوہری تحقیق کا آغاز کیا، اور شاہ ایران کے دور میں اسرائیل کے ساتھ مضبوط اقتصادی و سکیورٹی روابط تھے۔ لیکن 1979 کا اسلامی انقلاب اس تعلق کا اختتام ثابت ہوا، جب آیت اللہ خمینی نے اقتدار سنبھالا اور اسرائیل کو "شیطانِ بزرگ” امریکہ کے بعد "سب سے بڑا دشمن” قرار دیا۔
2002 میں نطنز پلانٹ کا انکشاف، پھر 2006 میں یورینیم افزودگی کی بحالی، اور بعد ازاں سٹکس نیٹ وائرس کے ذریعے ایران کے جوہری نظام پر سائبر حملہ — یہ تمام واقعات اسرائیل اور ایران کے درمیان "سایہ جنگ” (shadow war) کے سنگ میل بنے۔
2015 میں طے پانے والا جوہری معاہدہ (JCPOA) ایک امید کی کرن ثابت ہوا، جس کے تحت ایران نے افزودگی محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن 2018 میں اسرائیل نے ایران پر الزام لگایا کہ اس نے معاہدے سے پہلے جوہری پروگرام چھپایا تھا۔ امریکہ کی جانب سے معاہدے سے دستبرداری کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
2020 سے لے کر اب تک اسرائیل نے ایران کے جوہری ماہرین کو ٹارگٹ کیا، نطنز پلانٹ پر حملے کیے، اور تہران میں محسن فخری زادہ جیسے نامور سائنسدان کو ہلاک کیا۔ ہر حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن جوابی کارروائی محدود رکھی — یہاں تک کہ 2024 آ گیا۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے اس کے ردعمل میں صرف غزہ نہیں، بلکہ شام اور ایران کو بھی نشانہ بنایا۔ یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملے میں دو جنرل ہلاک ہوئے، جس کے جواب میں 14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغے — یہ پہلا براہ راست حملہ تھا۔
اسی سال 31 جولائی کو اسماعیل ہنیہ، اور 27 ستمبر کو حسن نصر اللہ اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔ 1 اکتوبر کو ایران نے دوسرا بڑا حملہ کیا۔ دونوں ممالک اب مکمل جنگ کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔
13 جون 2025 سے اسرائیل نے بھرپور جنگی کارروائیوں کا آغاز کیا، جس میں ڈرونز اور جنگی طیارے استعمال کیے گئے۔ جوہری اور فوجی ڈھانچوں کے ساتھ ساتھ توانائی کے مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ایران کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملے جاری ہیں، جبکہ امریکہ اور دیگر مغربی قوتیں تشویش کا اظہار تو کر رہی ہیں، لیکن فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
اس ساری صورتحال میں ایران کا آئی اے ای اے سے تعاون محدود کرنے کا اعلان بین الاقوامی سفارتی کوششوں کے لیے ایک دھچکا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ جب عالمی ادارے اس کے خلاف حملوں پر خاموش رہیں تو وہ اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
مشرق وسطیٰ اس وقت ایک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کسی بھی وقت مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ امریکہ، چین، روس، یورپی یونین — سب کی نظریں اس خطرناک کھیل پر جمی ہوئی ہیں، مگر فوری حل کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
اسرائیل اور ایران کی دشمنی صرف عسکری یا نظریاتی نہیں، بلکہ ایک جیو پولیٹیکل حقیقت بن چکی ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ "خاموش جنگ” اب "کھلی جنگ” میں بدل چکی ہے۔ اگر فوری سفارتی مداخلت نہ کی گئی تو یہ کشیدگی نہ صرف خطے کی تباہی کا سبب بنے گی بلکہ عالمی امن کو بھی نگل سکتی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں اپنی جانبدارانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں اور مشرق وسطیٰ کو ایک نئی جنگ سے بچانے کے لیے غیر جانب دارانہ اور مضبوط سفارتی کردار ادا کریں — کیونکہ اگر یہ جنگ بڑھی، تو اس کے شعلے صرف تہران یا تل ابیب تک محدود نہیں رہیں گے۔