
ہیٹی میں قحط کا خطرہ شدت اختیار کر گیا، اقوام متحدہ کا ہنگامی انتباہ
"ہیٹی میں صورتحال ناقابل برداشت حد تک بگڑ چکی ہے۔ لوگ خوراک کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ یہ صرف غذائی قلت کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسان دوست المیہ ہے۔"
پورٹ او پرنس (نمائندہ خصوصی) :کیریبین ملک ہیٹی ایک شدید انسانی بحران کی دہلیز پر کھڑا ہے، جہاں غذائی قلت قحط کی سطح کو چھونے لگی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) اور ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ہیٹی میں لاکھوں افراد روزانہ کی بنیاد پر خوراک کے حصول کے لیے شدید جدوجہد کر رہے ہیں اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک بھر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
مسلح تنازعات، معاشی بحران اور موسمیاتی اثرات: ایک تباہ کن امتزاج
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہیٹی میں غذائی بحران کے کئی اسباب ہیں، جن میں شہری جنگ، غیر مستحکم حکومت، مہنگائی، ایندھن کی قلت، گینگ وارز اور شدید موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ خاص طور پر دارالحکومت پورٹ او پرنس میں حالات نہایت دگرگوں ہیں جہاں ہزاروں خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں اور بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر، جین مارک فاؤ، کے مطابق:
"ہیٹی میں صورتحال ناقابل برداشت حد تک بگڑ چکی ہے۔ لوگ خوراک کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ یہ صرف غذائی قلت کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسان دوست المیہ ہے۔”
قحط کی سطح تک پہنچنے والی غذائی قلت
FAO اور WFP کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، ہیٹی کی 48 فیصد آبادی — تقریباً 5.2 ملین افراد — غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 1.6 ملین افراد کو "ایمرجنسی لیول” پر خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں قحط کے اعلان کی دہلیز قریب تر آ جاتی ہے۔
Cité Soleil جیسے خطرناک اور گینگ کنٹرولڈ علاقوں میں رہنے والے افراد کی حالت سب سے زیادہ تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے ان علاقوں کو "انتہائی خطرناک زونز” قرار دیا ہے جہاں رسائی خود انسانی امدادی تنظیموں کے لیے ممکن نہیں رہی۔
مقامی شہریوں کی حالت زار
پورٹ او پرنس کے نواحی علاقوں میں مقیم ایک شہری، میری-جوزفین چارلس، نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:”ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ ہم دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھاتے ہیں۔ میرے تین بچوں نے کل صرف پانی پی کر رات گزاری۔ ہم صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
بیشتر خاندان خشک روٹی، کیلے کے پتے، یا شوربہ نما خوراک پر گزارا کر رہے ہیں، جب کہ بچے غذائی قلت کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا مطالبہ
اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے فوری مالی و غذائی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ:”اگر ہیٹی میں امدادی کارروائیاں نہ بڑھائی گئیں تو بہت جلد یہ قحط کی باقاعدہ تعریف پر پورا اترنے لگے گا۔”
WFP کے مطابق، انہیں فوری طور پر 75 ملین ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ اگلے تین ماہ میں 2 ملین افراد تک اشیائے خور و نوش پہنچائی جا سکیں۔
پاکستان اور دیگر ممالک کا کردار؟
ابھی تک جنوبی ایشیائی ممالک کی جانب سے ہیٹی کے بحران پر کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے جاری اپیل کے بعد امکانات ہیں کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک انسانیت کے ناطے امدادی تعاون میں شامل ہو سکتے ہیں، جیسا کہ وہ ماضی میں دیگر افریقی یا مشرقِ وسطیٰ کے بحرانوں میں کرتے رہے ہیں۔
نتیجہ: انسانی بحران کی گھڑی
ہیٹی اس وقت دنیا کی اُن چند بدترین ریاستوں میں شامل ہو چکا ہے جہاں ریاستی نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے۔ گینگوں کی حکمرانی، سیاسی عدم استحکام، اور قدرتی آفات نے عوام کو شدید غذائی بحران میں دھکیل دیا ہے۔
یہ ایک ایسا المیہ ہے جو اگر فوراً نہ روکا گیا تو لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا انتباہ صرف ایک رپورٹ نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بیداری کی کال ہے — کیونکہ قحط کی صورت میں خاموشی جرم بن جاتی ہے۔