
تجزیہ:سید عاطف ندیم، پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ
موجودہ عالمی منظرنامے میں، جہاں مشرقِ وسطیٰ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دہانے پر کھڑا ہے، وہیں پاکستان نے ایک بار پھر خود کو علاقائی استحکام اور ذمہ دار سفارت کاری کے نمایاں ستون کے طور پر منوایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال فیلڈ مارشل سید عاصم منیر (NI, M)، چیف آف آرمی اسٹاف، کی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تاریخی اور اہم ملاقات ہے، جس نے بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں گہری توجہ حاصل کی ہے۔
یہ ملاقات کسی روایتی رسمی سفارتی ملاقات سے کہیں بڑھ کر تھی۔ درحقیقت، اسے ایک اسٹریٹجک ری سیٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو پاکستان اور امریکہ کے درمیان نئی جہتوں میں تعاون، اعتماد اور شراکت داری کا آغاز ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کو "اعزاز” قرار دیا بلکہ پاکستان کے علاقائی استحکام میں کردار کو بھی سراہا۔
صدر ٹرمپ نے خاص طور پر ایران-اسرائیل تنازعے کے دوران پاکستان کے متوازن اور تعمیری مؤقف کی تعریف کی، اور کہا کہ "پاکستان اس مشکل وقت میں امید، تحمل اور حل کی سوچ کے ساتھ آگے آیا ہے۔” انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اس کردار پر خراجِ تحسین پیش کیا اور پاکستان سے اپنی دیرینہ محبت کا بھی اظہار کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس متوازن کردار کو صرف امریکہ نے نہیں، بلکہ ایران جیسے علاقائی کھلاڑی نے بھی تسلیم کیا۔ ایرانی عوام اور قیادت نے پاکستان کے کردار کو "باعزت” اور "حکمت پر مبنی” قرار دیتے ہوئے عوامی سطح پر "شکریہ پاکستان” جیسے پیغامات دیے، جو پاکستان کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سفارتی حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بھارت کو کئی محاذوں پر سفارتی، سیاسی اور اخلاقی دباؤ کا سامنا ہے۔ "حق کی جنگ” کے بعد بھارت کو عالمی برادری کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ پاکستان ایک ذمہ دار، تدبر سے لبریز اور امن پسند ریاست کے طور پر ابھرا۔
بھارت کی عسکری جارحیت، علاقائی تکبر اور اقلیت مخالف پالیسیوں نے اسے بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا ہے، جبکہ پاکستان، چین کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعاون کے نئے باب رقم کر رہا ہے۔
پاکستان کی سفارتی حکمت عملی نے نہ صرف بھارت کی "تنہا کرنے کی کوششوں” کو ناکام بنایا بلکہ مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر عالمی ایجنڈے پر واپس لانے میں بھی مدد دی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی آمادگی اس کا واضح ثبوت ہے۔
صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات میں جن شعبوں پر باہمی تعاون پر اتفاق ہوا، ان میں قابل ذکر ہیں:
انسداد دہشت گردی
کان کنی اور معدنیات
کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل فنانس
انسٹیٹیوشنل سیکیورٹی کوآرڈینیشن
یہ تمام شعبے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اب عارضی نہیں بلکہ ادارہ جاتی بنیادوں پر قائم ہونے جا رہے ہیں، جو دیرپا تعاون کا پیش خیمہ ہوں گے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف عسکری میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی مثبت، تدبرانہ اور دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کی ہے، جو عالمی سطح پر اس کی عزت و وقار میں اضافے کا باعث بنی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے براہِ راست پاکستان کی عسکری قیادت کو سراہنا ایک ایسا اشارہ ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اب پاکستان کو علاقائی قیادت اور فیصلہ سازی میں مؤثر اور قابل بھروسہ شراکت دار سمجھ رہی ہیں۔
یہ ملاقات ایک علامتی پیش رفت نہیں بلکہ ایک نئے، خوداعتماد اور مؤثر پاکستان کے عالمی سطح پر دوبارہ اُبھرنے کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف عسکری طاقت رکھتا ہے بلکہ سفارتی بصیرت اور علاقائی دانش میں بھی اپنا لوہا منوا چکا ہے۔
عالمی سفارت کاری کے موجودہ تناظر میں، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ایک نئے عالمی اعتماد، باہمی تعاون اور خطے میں استحکام کے بیانیے کی بنیاد بن چکی ہے، جو آنے والے برسوں میں پاکستان کے لیے ایک پائیدار سفارتی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے۔