
اسرائیل ناقابلِ تسخیر یا پانی کا بلبلہ ؟…..سید عاطف ندیم
اسلامی انقلاب نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا، اور فلسطینی قوم کی بھرپور حمایت کی
ایران کا عزم کہ وہ کبھی بھی امریکہ یا اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا، محض ایک بیانیہ نہیں بلکہ ایک گہرا حقیقتی، تاریخی اور سیاسی فیصلے کا اظہار ہے۔ اس مضمون میں ہم نہ صرف اس عزم کی وجوہات کا جائزہ لیں گے بلکہ اس کے جغرافیائی، دفاعی، نظریاتی اور عوامی پس منظر کو بھی تفصیل سے سمجھیں گے۔ اس عزم کے کئی پہلو ہیں جن میں تاریخ، خارجی تعلقات، عسکری تیاری، نظریاتی بنیاد اور عوامی جذبہ شامل ہیں۔ یہ مضمون ایران کے قیامِ اسلامی سے لے کر موجودہ دور تک کے سفر کا ایک مفصل نقشہ فراہم کرتا ہے۔
1953 کے انتخابات کے دوران منتخب وزیرِ اعظم محمد مصدق نے تیل کی قومی ملکیت کا حکم دیا، جسے امریکہ اور برطانیہ نے اپنی طاقت کے مفادات کے خلاف سمجھا۔ اس کے نتیجے میں CIA کی سرپرستی میں ایک فوجی بغاوت کی گئی، جس نے شاه ایران کو دوبارہ اقتدار میں لایا۔ عوامی سطح پر اس اقدام کو ایک غیر قانونی اور غیر جوازیت سمجھا گیا، جس سے ایران میں امریکی مداخلت کا آغاز ہوا۔
1979 میں عوامی بیداری اور مذہبی قیادت کے تحت آیت اللہ خمینی کے زمانے میں شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ایران نے ایک اسلامی ریاست کا قیام کیا۔ انقلاب نے امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی عزم بھری جدوجہد کو ہوا دی۔ امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے اور سفارت خانے پر قبضہ نے مخالفانہ رویہ کو واضح طور پر بیان کیا۔
اسلامی انقلاب نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا، اور فلسطینی قوم کی بھرپور حمایت کی۔ یہ ایک عالمی سطح پر ایرانی موقف تھا جس نے علاقائی معنوں میں ایران کو امریکہ اور اسرائیل کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔
ایران کی نظریاتی بنیاد “مقاومت” یا سماجی، عسکری و سیاسی مزاحمت پر ہے، جو صرف زبانی نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی مؤثر ہے۔ ایران نے اپنے دفاع کو خود انحصاری کے اصولوں پر تعمیر کیا، اور پڑوسی عرب ممالک سے مختلف تربیت یافتہ فوجوں، مسلح تنظیموں اور عسکری حکمتِ عملی سے اپنا دفاعاتی نقشہ کھینچا۔
آیت اللہ خامنہ ای، ایران کے اعلیٰ رہنما، نے بارہا وضاحت کی کہ رہنما کی حکمت عملی صرف دفاعی قدروں پر مبنی ہے۔ وہ آمرانہ یا جارحانہ رویہ کے خلاف ہیں، لیکن اندرونی خودمختاری اور اسلامی اصولوں پر سمجھوتہ کسی بھی صورت قبول نہیں۔
ایران نے سنہ 1980 سے 1988 تک عراق کے خلاف دفاع کے لیے میزائل سسٹمز میں سرمایہ کاری کی۔ یہ میزائل قوت اس قابل رہی کہ امریکہ و اسرائیل نے اسے علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کیا۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنی خودمختاری کی علامت بنانے کے لیے میزائل ترقی کو بنیاد بنایا۔
ایران نے نیوکلئر پروگرام کا آغاز امن پسندانہ مقاصد کے لیے کیا، مگر مغربی دنیا مخصوص طور پر امریکہ و اسرائیل نے اسے خطرہ گردانا۔ 2015 میں جوہری معاہدہ (JCPOA) نے عارضی طور پر تناؤ کو کم کیا، مگر 2018 میں امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے نے ایران کے عزم کو مزید مضبوط کیا، اور ایران نے معاہدے کے دھارے سے الگ ہوتے ہوئے اپنی جوہری مشینری میں تیزی کی۔
2007 سے ایران نے مقامی طور پر ڈرونز تیار کرنے شروع کیے، جو مشرق وسطیٰ میں مختلف محاذوں پر استعمال ہوئے، خاص کر شام، عراق، یمن اور خلیج فارس میں۔ یہ ٹیکنالوجی دفاعی قوت اور علاقائی اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنی۔
حوثیوں کے ساتھ شراکت داری نے ایران کو یمن میں طاقتور اتحادی بنایا، جبکہ لبنان میں حزب اللہ ایک کلیدی عسکری اور سیاسی طاقت ہے، جس کا ایران کے دفاعی نیٹ ورک کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ تنظیم امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک طویل المدت حکمت عملی کا حصہ ہے۔
شام کے داخلی بحران میں ایران نے بشار الاسد حکومت کی مدد کی، جبکہ عراق میں بھی مقامی ملیشیاؤں کے ذریعے اثر و رسوخ پیدا کیا۔ اس سے نہ صرف تلفیوں میں اضافہ ہوا بلکہ امریکہ کی خطے میں دشمنانہ پالیسیوں کے خلاف ایک دفاعی حصار قائم ہوا۔
امریکہ نے 2006، 2012 اور 2018 میں سخت پابندیاں عائد کیں جس سے ایران کی اقتصادی حالت متاثر ہوئی؛ خصوصاً تیل کی برآمد میں کمی، مالیاتی رکاوٹیں، اور عالمی بینکاری نظام سے خارج ہونے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایران نے اپنی اقتصادی خود انحصاری کو مضبوط کرنے کے لیے داخلی صنعت، زرعی ترقی اور حکومتی امداد کے حکمت عملی اپنائیں۔
پابندیوں نے ایرانی عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا کروایا، مگر حکومت نے بڑی تعداد میں سرکاری اخراجات اور اقتصادی پیکیج فراہم کیے تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ اس سے یہ تاثر واضح ہوا کہ حکومتی عزم عوامی معیارِ زندگی کے بحرانوں کے باوجود کمزور نہیں ہے۔
ایرانی عوام میں امریکی استعمار اور اسرائیلی سامراج کے خلاف ایک گہری نفرت موجود ہے۔ یہ نظریاتی جذبہ انقلاب کی کامیابی سے قائم ہے۔ عوامی نہضتیں، جیسے 2009 کا گرین تحریک اور حالیہ احتجاجات، اگرچہ داخلی تبدیلیوں کے لیے تھیں، لیکن اس مقصد کے خلاف نہیں بلکہ قومی دائرہ کار کے اندر تبدیلی طلب کر رہی تھیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل بین الاقوامی سطح پر ایران کے موقف کو اجاگر کرتی ہے: "ہم اقتدار کے خلاف نہیں، مگر خود مختاری کے لیے لڑتے ہیں”۔ یہی نقطۂ جذبہ ایران کو ایک مربوط سماجی طاقت میں تبدیل کرتا ہے۔
امریکی پالیسی خصوصاً ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کو جوہری سازو سامان، میزائل پروگرام، ڈرون ٹیکنالوجی اور علاقائی اثر و رسوخ سے روکنے کے لیے مسلسل پابندیاں اور سفارتی تناؤ میں رکھا۔ لیکن امریکہ کی یہ کوشش صرف ایران کو کمزور نہیں کر سکی، بلکہ ایران کی مزاحمتی پالیسی کو تحریک دی۔
اسرائیل، جو ایران کو بنیادی خطرہ سمجھتا ہے، نے خاموشی کے ساتھ یا حملے کے بعد بھی، ایران کی نیوکلئر انفراسٹرکچر پر حملوں کے امکانات یا حملوں کے بیانات جاری کیے۔ ایران نے جواباً اپنے دفاع میں تیزی کرتے ہوئے بتایا کہ "کسی بھی جارحیت کا جوابی قیمت ہوگا”۔
ابھی بھی یورپی ممالک مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ایران کا اصولی مؤقف واضح ہے: "اگر ہم پر دباؤ ڈالے گا تو نہیں جھکیں گے، مگر اگر احترام اور مساوی حقوق پر مبنی مذاکرات ہو تو خوش آمدید ہیں۔”
اگر عالمی دائرے میں ایران پر زیادہ بریدگی کی گئی تو یہ دفاعی قوت استعمال کرے گا۔ لیکن ایران بادی النظر میں جنگ کا خواہاں نہیں، بلکہ ایک متحرک دفاعی اور سفارتی پالیسی اختیار کرتا ہے تاکہ علاقے میں طاقت کا توازن قائم رہ سکے۔
سب سے متوقع صورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور ایران آپسی عدم جارحیت اور مشترکہ مفادات کے تحفظ کی بنیاد پر ایک نئے عالمگیر معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایران اپنا دفاع مضبوط رکھے گا، مگر عالمی معاشی اور سیاسی نظام میں اپنی موثر جگہ بھی برقرار رکھے گا۔
ایران کا اعلان، "امریکہ یا اسرائیل کے سامنے کبھی ہتھیار نہ ڈالیں گے”، صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک عملی اور نظَریاتی اصول ہے جس کی بنیاد انقلاب ہے۔ اس کا محور اپنے دفاع، خود مختاری، اور اسلامی شناخت ہے۔
تاریخی اعتبار: انقلابِ ۱۹۷۹ کے بعد ایرانی عوام نے جانور عظیم کے مقابلے میں ایک خود مختار مذہبی حکومت کے قیام کو اولین منزل بنایا۔
نظریاتی عہد: مزاحمت کے فلسفے پر مبنی ایک ایسا عزم جو بیرونی یعنی مغربی طاقتوں کے خلاف رکاوٹ کھڑا کرتا ہے۔
عسکری خودمختاری: میزائل، ڈرون، ایرانی نیشل ڈیفنس ٹیکنالوجی کا اپنا ماڈل تیار کرنا۔
معاشی مستعدی: اقتصادی بہبود کا حکومتی منصوبہ، درآمدی تبدیلی اور پابندیوں کے باوجود اندرونی صنعت پر انحصار۔
علاقائی اتحاد: حزب اللہ، حوثی، شامی اور عراقی اتحادی قوتوں کے ساتھ مشترکہ دفاعی و سیاسی نظام بندی۔
عوامی یکجہتی: نوجوان نسل سے لیکر بزرگ تک، ایران میں امریکی و اسرائیلی دباؤ کے خلاف قومی حساسیت اور جذبہ پایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی تناظر: مذاکرات اگر باعزت ہوں تو خیر، مگر عراق یا شام جیسی وسائل کی جنگوں میں ایران کہیں شا