
چابی والا اخروٹ :ٹک ٹاک نے پشاور کے ایک دکاندار کو عالمی ستارہ بنادیا
”وہی لوگ فخر سے کہتے ہیں، ’ہم گل ولی خان، نایاب ڈرائی فروٹس کے رشتہ دار ہیں۔‘“
یہ سب کچھ پشاور کے ریل شاپنگ پلازہ میں ایک چھوٹی سی خشک میوہ جات کی دکان سے شروع ہوا- کوئی خاص بات نہیں، بس ایک عام سی جگہ، جہاں اخروٹ سے بھرے ہوئےشیلف تھے اور کاؤنٹر کے پیچھے ایک جوشیلا شخص کھڑا تھا۔ وہ شخص گل ولی خان تھا، جس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک اخروٹ اور چھوٹی سی چابی اُسے ٹک ٹاک اسٹار بنا دے گی۔ لیکن بالکل ایسا ہی ہوا۔ ان کی دلچسپ ”چابی والا اخروٹ“ ویڈیو نے صرف ایک اخروٹ ہی نہیں توڑا، بلکہ انٹرنیٹ کو ہلا کر رکھ دیا اور اُن کے کاروبار کے لیے ایک نیا باب کھول دیا۔ اُن کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، لاکھوں ویوز حاصل کیے، اور چند ہی ہفتوں میں گاہکوں کا رش لگ گیا۔ جو کبھی ایک خاندانی دکان تھی، وہ اب ٹک ٹاک کی مدد سے ایک منفرد منزل میں بدل گئی۔
”تقریباً 20 سال پہلے،“ گل ولی یاد کرتے ہیں، ”مجھے ایک اخروٹ ملا جسے توڑنا ممکن نہیں تھا—نہ ہاتھ سے، نہ دانتوں سے، نہ ہتھوڑے سے، اور نہ ہی گاڑی کے نیچے رکھ کر۔ یہ ایک خاص چابی کے ساتھ آیا، اور اس کی کوئی بھی نقل ناکام ہو گئی۔“ یہ عجیب و غریب اخروٹ سالوں تک اُن کے پاس رہا، یہ کھانے کے لیے نہیں، بلکہ کہانی سنانے کے لیے تھا۔ انہوں نے ایک مختصر ویڈیو بنائی اور ٹک ٹاک پر پوسٹ کر دی۔ یہ انداز انوکھا تھا، مزے دار تھا، مختلف تھا جسکی وجہ سےیہ وائرل ہو گیا۔
”جب میں نے پہلی بار پوسٹ لگائی،“ گل ولی مزید بتاتے ہیں، ”میرا بھائی، میرا بھتیجا، یہاں تک کہ قریبی دکاندار بھی مجھ پر ہنسے۔ انہوں نے سوچا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں۔ لیکن انٹرنیٹ نے کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ جلد ہی، گل ولی صرف ایک دکاندار نہیں رہا، بلکہ ایک ستارہ بن گیا۔“
گل ولی خان کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ، نایاب ڈرائی فروٹس، تیزی سے مقبول ہو گیا۔ آج، اس کے 831,000 سے زیادہ فالوورز اور 25.5 ملین سے زائد لائیکس ہیں، جس نے ان کی گم نام دکان کو ڈیجیٹل لینڈ مارک میں بدل دیا ہے۔ ہر نئی اپ لوڈ کے ساتھ، اُن کے کاروبار کو نئے ناظرین اور نئے گاہک ملے۔ ”ٹک ٹاک سے پہلے،“ وہ کہتے ہیں، ”ہم صرف 10فیصدپر کام کر رہے تھے۔ اب ہم 90فیصد تک بڑھا چکے ہیں۔“
گل ولی خان کہتے ہیں، ”وہی لوگ فخر سے کہتے ہیں، ’ہم گل ولی خان، نایاب ڈرائی فروٹس کے رشتہ دار ہیں۔‘“ پہلے مقامی لوگ آنے لگے، پھر دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے، اور پھر برطانیہ، کینیڈا، اور سوئٹزرلینڈ سے سیاح بھی پہنچ گئے، جو اُن سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ یہاں تک کہ اُن کی دکان اب ایک ڈیجیٹل لینڈ مارک بن چکی ہے، جہاں ہر نئی ویڈیو کے ساتھ نئے گاہک آ رہے ہیں۔
گل ولی خان کے لیے خشک میوہ جات صرف کاروبار نہیں، بلکہ خاندانی ورثہ ہیں۔ ان کے والد اور بھائی بھی اسی تجارت میں تھے، لیکن انہوں نے کچھ نیا شامل کیا—فون، انٹرنیٹ، اور تخلیقی صلاحیت۔ انہوں نے کوئی سوشل میڈیا ٹیم نہیں رکھی۔ ” کوئی حکمت عملی نہیں،“وہ کہتے ہیں، ”بس میں، میرا بیٹا، اور کبھی کبھار ہمارا عملہ۔ میں اپنے کام کو دلچسپ اور بامعنی بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔“
چھوٹے کاروباری مالکان کے لیے گل ولی خان کا مشورہ انتہائی سادہ ہے: ” آپ خواہ کچھ سادہ کیوں نہ بیچ رہے ہوں اسے آن لائن دیکھا ئیں
گل ولی کے لیے میڈیم اہم نہیں، بلکہ پیغام، خلوص، اور کوشش کی آمادگی ہی فرق پیدا کرتی ہے۔ ”ڈرو مت،“ وہ کہتے ہیں۔ ”جو کچھ آپ کے پاس ہے، اسی سے شروعات کریں۔ آپ کو بڑی ٹیم کی ضرورت نہیں، بس یقین اور تخلیقی صلاحیت کافی ہے۔“
گل ولی خان یورپ میں برانچز کھولنے کی امید رکھتے ہیں، کیونکہ بین الاقوامی مداح اُن کے کاروبار میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”لوگ مجھے بتاتے ہیں، ’ہم پاکستان صرف آپ کی دکان دیکھنے آئے ہیں۔ یہی ٹک ٹاک کی طاقت ہے۔‘“ جو کچھ ایک اخروٹ اور ایک چابی سے شروع ہوا تھا، وہ دنیا کے لیے ایک چابی بن گیا۔ اور گل ولی، جسے کبھی خشک میوہ جات کی ویڈیو بنانے پر مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا، اب چھوٹے کاروباری مالکان کو آن لائن پوسٹ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں- خواہ وہ صرف آئس کریم ہی کیوں نہ ہو۔
***