
اترپردیش میں 65 سال پرانا تاریخی مدرسہ بغیر عدالتی اجازت کے مسمار: بھارت میں مسلم شناخت مٹانے کی مہم جاری
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 28 مدارس، 9 مساجد، 6 مزارات اور ایک عیدگاہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے مسمار کیا جا چکا ہے
نئی دہلی (نمائندہ خصوصی): بھارت میں مودی حکومت کے زیر قیادت مسلمانوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں اور مذہبی و تعلیمی اداروں پر حملوں میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تازہ ترین واقعہ ریاست اترپردیش کے ضلع شراوستی میں پیش آیا، جہاں ایک 65 سال پرانا تاریخی مدرسہ بغیر کسی عدالتی اجازت اور قانونی کارروائی کے مسمار کر دیا گیا۔ اس واقعے نے ملک کے اندر اور باہر شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
الہٰ آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی کھلی خلاف ورزی
ذرائع کے مطابق، یہ انہدام الہٰ آباد ہائیکورٹ کی اُس ہدایت کے بالکل برخلاف کیا گیا، جس میں یوپی حکومت کو واضح طور پر تاکید کی گئی تھی کہ وہ مدارس یا دیگر مذہبی مقامات کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریز کرے جب تک مکمل قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔ لیکن اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے بغیر نوٹس، بغیر عدالتی مداخلت اور بغیر کسی موقع دیے مدرسے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
شراوستی میں اسلامی تشخص پر منظم حملے
شراوستی، جو ماضی میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال سمجھا جاتا تھا، آج مسلمانوں کے لیے خوف کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 28 مدارس، 9 مساجد، 6 مزارات اور ایک عیدگاہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے مسمار کیا جا چکا ہے۔ مقامی افراد اور انسانی حقوق کے کارکنان اس پورے عمل کو مسلمانوں کی مذہبی شناخت مٹانے کی ایک منظم اور سوچی سمجھی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
وقف املاک پر قبضے اور مدارس کی بندش کی حکمت عملی
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے ماتحت ریاستی مشینری نے وقف املاک پر قبضے کے لیے پہلے سے قانونی زمین ہموار کی تھی، اور اب مدرسوں کی رجسٹریشن کے عمل کو پیچیدہ اور غیر شفاف بنا کر انہیں "غیر مجاز” قرار دینے کی مہم جاری ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، جو کبھی تعلیمی معیار کے فروغ کا ادارہ سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کے دباؤ میں آکر دینی اداروں کو بند کرنے کی سفارشات کا ذریعہ بن چکا ہے۔
یوپی میں کئی دینی مدارس کو "سروے” کے نام پر ہراساں کیا جا رہا ہے، جبکہ اس عمل کا استعمال انہیں غیر قانونی قرار دینے اور ان کے خلاف کارروائی کو جائز ٹھہرانے کے لیے ہو رہا ہے۔
اقلیتوں کی مذہبی و تعلیمی آزادی پر حملہ
ان تمام اقدامات کو بھارت کے اندر سیکیولر طبقات، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی مبصرین اقلیتوں کی مذہبی اور تعلیمی آزادی پر ایک کھلی جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں بھی بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، کے خلاف ریاستی اداروں کے استعمال پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔
مسلمانوں کی روزمرہ زندگی مزید تنگ
مودی حکومت کی پالیسیوں کے تحت مسلمانوں کی زندگی ایک مسلسل دباؤ، خوف اور نگرانی کے ماحول میں ڈھل چکی ہے۔ کہیں انہیں بیف کے جھوٹے الزام میں نشانہ بنایا جاتا ہے، کہیں "لو جہاد” کے الزامات کی بنیاد پر ظلم و تشدد کا سامنا ہوتا ہے، اور اب دینی تعلیم کے مراکز، جو برصغیر کی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں، ریاستی مشینری کے نشانے پر آ چکے ہیں۔
سیکیولر بھارت کا چہرہ مسخ ہوتا جا رہا ہے
یہ واقعات بھارت کے آئینی ڈھانچے اور اس کی سیکیولر حیثیت پر بھی سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ بھارت کا آئین مذہبی آزادی، مساوات، اور تعلیم کا حق دیتا ہے، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس جا رہے ہیں۔ سیکیولر طبقہ، صحافی، اور تعلیمی ماہرین کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ بھارت آج اس ڈگر پر چل نکلا ہے، جہاں جمہوریت کی روح کمزور اور اقلیتوں کا وجود خطرے میں ہے۔
شراوستی میں مدرسے کی مسماری کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی علامت ہے، جس میں مذہبی اقلیتوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی ایک مربوط کوشش جاری ہے۔ اگر بھارت کو واقعی ایک جمہوری، سیکیولر اور کثیرالثقافتی ملک کے طور پر برقرار رہنا ہے تو ان پالیسیوں کا فوری خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ بصورتِ دیگر، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ ایک کھوکھلے نعرے میں بدل جائے گا۔