پاکستاناہم خبریں

ایران-اسرائیل تنازعہ: پاکستان کو درپیش ممکنہ سکیورٹی اور معاشی خطرات میں اضافہ

ایران کے اندر بلوچ مزاحمت کی تحریک اگر زور پکڑتی ہے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو گا۔ بلوچستان کی سرحدی پٹی پر پہلے ہی حالات نازک ہیں

تجزیہ و تحریر سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے کے نویں روز میں داخل ہوتے ہی اس کے اثرات نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پاکستان جیسے قریبی اور جغرافیائی طور پر حساس ممالک پر بھی گہرے ہونے لگے ہیں۔ پاکستان جو پہلے ہی شدت پسندی، بلوچ علیحدگی پسندی، معاشی بحران اور توانائی کے مسائل سے نبرد آزما ہے، اس نئے جغرافیائی بحران سے مزید دباؤ میں آ سکتا ہے۔
سرحدی صورتحال اور بلوچ علیحدگی پسندی کا خطرہ
پاکستان اور ایران کے درمیان 909 کلومیٹر طویل سرحد بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے جڑی ہوئی ہے۔ حالیہ کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی حکام نے پیر کے روز اعلان کیا کہ ایران کے ساتھ متعدد سرحدی راستے غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ اگرچہ تفتان اور ریمدان جیسے راستے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ صورت حال تشویشناک رخ اختیار کر چکی ہے۔
بلوچستان میں سرگرم بلوچ علیحدگی پسند گروہ، خصوصاً بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، ایک طویل عرصے سے سکیورٹی فورسز، حکومتی تنصیبات اور حتیٰ کہ چینی منصوبوں پر بھی حملے کرتے آ رہے ہیں۔ ان گروہوں کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہی ہے۔ ایران کے اندر بھی بلوچ علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں ماضی سے چلی آ رہی ہیں، اور اگر تہران حکومت اس تنازعے کے باعث کمزور پڑتی ہے تو ان تحریکوں کو تقویت مل سکتی ہے، جو پاکستانی بلوچستان میں بھی علیحدگی پسندوں کو حوصلہ دے سکتی ہے۔
"ایران کے اندر بلوچ مزاحمت کی تحریک اگر زور پکڑتی ہے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو گا۔ بلوچستان کی سرحدی پٹی پر پہلے ہی حالات نازک ہیں، اور کسی بھی عسکری یا سیاسی تبدیلی سے صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔”
پاکستان کے لیے سفارتی و جغرافیائی دباؤ
پاکستان کے ایران اور سعودی عرب جیسے حریف ممالک سے تعلقات تاریخی طور پر متوازن اور محتاط رہے ہیں۔ ایران-اسرائیل کشیدگی میں کسی بھی فریق کی طرف جھکاؤ پاکستان کے لیے اندرونی و بیرونی طور پر چیلنج بن سکتا ہے۔ ایک طرف خلیجی ممالک، جو پاکستان کے قریبی معاشی شراکت دار ہیں، ایران کے خلاف پالیسیوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف ایران پاکستان کا ہمسایہ اور ایک تاریخی تجارتی اتحادی بھی رہا ہے۔
پاکستانی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اسلام آباد کو ایک نہایت نازک سفارتی توازن برقرار رکھنا ہو گا۔
"پاکستان کے لیے غیرجانبداری کا مظاہرہ ایک دانشمندانہ راستہ ہو سکتا ہے، لیکن زمینی حقائق میں غیر جانبدار رہنا آسان نہیں ہو گا، خاص طور پر جب سکیورٹی خطرات اور علاقائی مفادات داؤ پر لگے ہوں۔”
آبنائے ہرمز، تیل کی قیمتیں اور پاکستانی معیشت
ایران اور اسرائیل کے مابین ممکنہ جنگ کی صورت میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ خدشات آبنائے ہرمز سے وابستہ ہیں۔ یہ آبی راستہ عالمی توانائی رسد کا ایک اہم ذریعہ ہے، جہاں سے دنیا کے تقریباً 20 فیصد تیل کا گزر ہوتا ہے۔ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کی تو اس کے فوری اثرات تیل کی عالمی قیمتوں میں شدید اضافے کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
پاکستان، جو پہلے ہی مہنگائی، توانائی بحران اور روپے کی گراوٹ کا سامنا کر رہا ہے، ایسے کسی بھی جھٹکے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ بجلی، ٹرانسپورٹ، کھاد، زراعت اور صنعتوں پر براہِ راست اثر ڈالے گا، جس سے غربت، بے روزگاری اور سماجی بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق:
"اگر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں 10 ڈالر فی بیرل کا بھی اضافہ ہوا تو پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ دوگنا ہو جائے گا۔ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ پہلے ہی خسارے میں ہے، اور توانائی کی قیمتوں میں معمولی تبدیلی بھی مہنگائی کو آسمان تک لے جا سکتی ہے۔”
ایران سے غیر رسمی تجارت اور بلوچستان کا معاشی منظرنامہ
بلوچستان میں خاص طور پر ایران کے ساتھ غیر رسمی سرحدی تجارت ایک اہم ذریعہ معاش ہے۔ پیٹرول، اشیائے خور و نوش، اور روزمرہ کے استعمال کی اشیا بڑی تعداد میں ایران سے بلوچستان آتی ہیں۔ سرحدی راستوں کی بندش سے نہ صرف یہ تجارت متاثر ہو گی بلکہ مقامی روزگار، بازاروں کی روانی اور عام آدمی کی زندگی براہِ راست متاثر ہو سکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال
ایران اور اسرائیل کا تنازعہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے گا۔ اس کا اثر براہِ راست ان ممالک پر ہو گا جو جغرافیائی لحاظ سے خطے سے جڑے ہوئے ہیں یا توانائی کے عالمی نظام میں انحصار رکھتے ہیں۔ پاکستان ان دونوں زمروں میں شامل ہے۔ سکیورٹی، سفارتکاری اور معیشت، تینوں محاذوں پر پاکستان کو غیر معمولی چوکسی، تیز رفتاری اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک کی اندرونی کمزوریاں اور بیرونی دباؤ ایک ایسے طوفان کی شکل اختیار کر سکتے ہیں جس کے اثرات نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ ہر پاکستانی شہری کی روزمرہ زندگی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button