
سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کیا جائے گا: بھارت کا سخت مؤقف، خطے میں پانی کی جنگ کے خدشات بڑھنے لگے
سندھ طاس معاہدہ سن 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں (ستلج، بیاس، راوی) اور پاکستان کو تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا استعمال دیا گیا تھا
نئی دہلی(نمائندہ خصوصی): بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے واضح اعلان کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو بحال نہیں کرے گا۔ ان کے بقول، پاکستان جانے والے دریائی پانی کو اندرون ملک استعمال کے لیے موڑ دیا جائے گا، اور نئی دہلی حکومت اب مزید ’پاکستان کے ناحق فائدے‘ کو برداشت نہیں کرے گی۔
”معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا“ – امیت شاہ
ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں امیت شاہ نے کہا،”وہ پانی جو پاکستان جا رہا تھا، ہم اسے ایک نہر بنا کر راجستھان کی طرف لے جائیں گے۔ پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس کا وہ ناحق فائدہ اٹھا رہا تھا۔ یہ معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا۔”
امیت شاہ، جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ کے سب سے بااثر رہنما سمجھے جاتے ہیں، ان کے اس سخت بیان نے پاکستان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی امیدوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ: پس منظر
سندھ طاس معاہدہ سن 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں (ستلج، بیاس، راوی) اور پاکستان کو تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا استعمال دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنی زرعی ضروریات کے لیے ان دریاؤں سے 80 فیصد پانی کی ضمانت حاصل تھی، جو کہ لاکھوں کسانوں کی زندگی کا انحصار ہے۔
تاہم، گزشتہ برس بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے ایک حملے، جس میں 26 افراد مارے گئے تھے، کے بعد بھارت نے اس معاہدے کو "معطل” کر دیا تھا۔ نئی دہلی نے اس حملے کو "دہشت گردی” قرار دیا اور اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کیا۔
اسلام آباد کا ردعمل اور ممکنہ نتائج
اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امیت شاہ کے تازہ بیان پر تاحال کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، تاہم ماضی میں اسلام آباد اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پاکستان ایسی کسی کوشش کو "جنگی اقدام” تصور کرے گا۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ماضی میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ،”اگر بھارت نے دریائی پانی روکا تو یہ اقدام جوہری جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ پانی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔”
بھارت کی منصوبہ بندی: راجستھان تک نہر کا منصوبہ
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت وہ ان مغربی دریاؤں سے نکلنے والے پانی کو، جو پاکستان کو جاتا ہے، ہندوستانی ریاستوں خصوصاً راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کی طرف موڑنے کے لیے بڑے ڈیمز اور نہری نظام تعمیر کرے گا۔
اس ممکنہ اقدام کے ماحولیاتی اور جغرافیائی سیاسی اثرات انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف بھارت-پاکستان تعلقات کو مزید کشیدہ کر دے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں پانی کے بحران کو بھی شدید کر دے گا۔
خطے میں بڑھتا ہوا پانی کا بحران
ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کے پیٹرن میں شدید تبدیلی آ چکی ہے۔ ایسے میں پانی کے ذخائر پر مسلح تنازعات کا خطرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
ماہرِ آبیات ڈاکٹر عارف محمود کے مطابق،
"اگر بھارت نے مغربی دریاؤں پر ڈیم یا بند باندھ کر پانی روکا، تو پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح غیرمعمولی حد تک کم ہو جائے گی، جس سے سندھ اور پنجاب کی زراعت تباہ ہو جائے گی، خوراک کی قلت پیدا ہو گی اور اندرون ملک نقل مکانی کا ایک نیا بحران جنم لے گا۔”
بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور مستقبل کی راہیں
اب تک عالمی بینک یا اقوام متحدہ جیسے اداروں کی طرف سے کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک اہم آبی معاہدہ ہے۔ اگر یہ معاہدہ مکمل طور پر ختم یا غیر مؤثر ہو جاتا ہے تو یہ عالمی قوانین، ماحولیاتی انصاف اور پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے لیے ایک شدید دھچکا ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارت کا یہ مؤقف نئی دہلی کی جارحانہ خارجہ و داخلی پالیسیوں کا تسلسل ہے، جس میں پڑوسی ممالک کے ساتھ سخت گیر رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ نہ صرف آبی سلامتی بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس پر فوری سفارتی، قانونی اور سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: امن یا تصادم؟
بھارت اور پاکستان، دونوں ایٹمی طاقتیں، دہائیوں سے کئی تنازعات کا سامنا کر چکے ہیں، لیکن پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی بحالی سے انکار نہ صرف ایک معاہدے کی موت ہے بلکہ اس پورے خطے میں پائیدار امن کی امیدوں کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بھی ہے۔