پاکستاناہم خبریں

پاکستان کا بھارت کو سخت پیغام: سندھ طاس معاہدے کی بحالی سے انکار ناقابل قبول، یکطرفہ اقدامات عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت نے پہلے ہی 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو اس وقت ’’معطل‘‘ کر دیا تھا جب پچھلے برس پہلگام حملے میں 26 بھارتی شہری ہلاک ہوئے تھے

اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو مستقل طور پر ختم کرنے کے حالیہ اعلان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے کی یکطرفہ معطلی بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے تازہ بیان کو ’’بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت کی کھلی خلاف ورزی‘‘ اور ’’سنگین بے حسی‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اس معاہدے کا مکمل احترام کرتا ہے اور اپنے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
بھارتی اعلان: معاہدہ کبھی بحال نہیں ہو گا
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ”سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کیا جائے گا۔ وہ پانی جو پاکستان جاتا تھا، اب ہم راجستھان کی طرف موڑ دیں گے۔ پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس کا وہ ناحق فائدہ اٹھا رہا تھا۔”
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت نے پہلے ہی 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو اس وقت ’’معطل‘‘ کر دیا تھا جب پچھلے برس پہلگام حملے میں 26 بھارتی شہری ہلاک ہوئے تھے، اور نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔ اسلام آباد نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
پاکستان کا مؤقف: پانی سیاسی ہتھیار نہیں بن سکتا
دفتر خارجہ کے ترجمان نے سخت لب و لہجے میں ردعمل دیتے ہوئے کہا:”سندھ طاس معاہدہ کوئی سیاسی مفاہمت نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس میں کسی یکطرفہ اقدام کی کوئی گنجائش نہیں۔ بھارت کی طرف سے معاہدے کو معطل کرنا غیر قانونی ہے اور بین الاقوامی معاہدوں کی شقوں اور ریاستی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
ترجمان نے مزید کہا کہ اس طرز عمل سے نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ ایسی ریاستوں کی سنجیدگی پر بھی سوال اٹھتا ہے جو کھلے عام اپنے قانونی وعدوں سے انحراف کرتی ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ:”پانی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہایت غیر ذمہ دارانہ فعل ہے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی مؤقف کو واپس لے اور سندھ طاس معاہدے پر مکمل، بلا تعطل عملدرآمد کو بحال کرے۔”
سندھ طاس معاہدہ: ایک تاریخی جائزہ
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی کے ذریعے طے پایا تھا، جس کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) بھارت کے حصے میں جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کو آبی حقوق کے واضح فریم ورک فراہم کیے اور خطے میں ممکنہ آبی جنگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنا۔
یہ معاہدہ گزشتہ 65 برسوں سے خطے میں آبی تنازعے کو نسبتاً قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے، تاہم موجودہ بھارتی رویہ اس معاہدے کے استحکام اور جنوبی ایشیاء کے امن و سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔
قانونی ماہرین اور بین الاقوامی برادری کی نظر میں تشویش
بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدے جیسے بین الریاستی معاہدے اقوام متحدہ کے چارٹر، ویانا کنونشن اور بین الاقوامی آبی قانون کے تحت تحفظ رکھتے ہیں، اور کسی بھی فریق کو اس سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کی اجازت نہیں۔
پاکستانی ماہر قانون ڈاکٹر طاہر ملک کا کہنا ہے:”یہ محض ایک تکنیکی معاہدہ نہیں بلکہ خطے کی بقا، غذائی تحفظ اور لاکھوں انسانوں کے روزگار سے جڑا ایک بنیادی فریم ورک ہے۔ بھارت کی طرف سے اس کی معطلی یا منسوخی نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ خطے کی انسانی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔”
ممکنہ نتائج اور علاقائی استحکام کو خطرات
پاکستان کا بیشتر زرعی نظام سندھ، جہلم اور چناب دریاؤں پر منحصر ہے۔ اگر بھارت نے ان دریاؤں کے بہاؤ کو روکنے یا محدود کرنے کی عملی کوشش کی تو پاکستان میں زرعی بحران، پانی کی شدید قلت، اور بڑے پیمانے پر معاشی و سماجی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان نے واضح کیا تھا کہ پانی کی فراہمی روکنا ’’جنگی اقدام‘‘ تصور کیا جائے گا۔ ایسے حالات میں خطے میں ایک نئے اور ممکنہ طور پر تباہ کن تنازعے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کا دوٹوک پیغام: آبی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا
دفتر خارجہ کے اعلامیے کے مطابق:”پاکستان اپنی جانب سے سندھ طاس معاہدے کا مکمل احترام کرتا ہے اور اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ ہم پرامن راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”
نتیجہ: وقت سفارتی مداخلت اور عالمی توجہ کا ہے
سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے مؤقف میں حالیہ شدت، خطے کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ اور عالمی بینک جیسے اداروں کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا ہو گا تاکہ جنوبی ایشیاء ایک اور بحران سے دوچار نہ ہو۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button