
ایران پر امریکی حملوں پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ردعمل: ’’صدر ٹرمپ نے تاریخ رقم کر دی‘‘
اسرائیلی دفاعی اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ ملک بھر کے اہم مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے
تل ابیب/واشنگٹن – ایران میں حالیہ امریکی فضائی حملوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے، اور ان حملوں کو جہاں عالمی طاقتوں نے تشویش کی نظر سے دیکھا ہے، وہیں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کو ’’تاریخی فیصلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کا بھرپور شکریہ ادا کیا ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے سرکاری بیان میں کہا:’’صدر ٹرمپ نے وہ کیا، جو دنیا کا کوئی دوسرا ملک یا رہنما نہیں کر سکا۔ انہوں نے دنیا کی سب سے خطرناک حکومت کو خطرناک ترین ہتھیاروں سے محروم کر کے پوری انسانیت پر احسان کیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے امن کی امید ہے۔‘‘
’’مہذب دنیا آپ کی شکر گزار ہے‘‘
نیتن یاہو نے امریکی صدر سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے مزید کہا:
’’صدر ٹرمپ، مہذب دنیا آپ کی شکر گزار ہے۔ آپ نے صرف اسرائیل یا امریکہ کے تحفظ کی بات نہیں کی، بلکہ پوری دنیا کو ایک ایٹمی آفت سے بچایا۔ یہ فیصلہ قیادت، حوصلے اور اصولوں کی بلند ترین مثال ہے۔‘‘
اسرائیلی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس
اسرائیل میں وزیر اعظم کے بیان کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جس میں ایرانی ردعمل سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات پر غور کیا گیا۔ اسرائیلی دفاعی اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ ملک بھر کے اہم مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
اسرائیلی آرمی چیف نے کہا ہے کہ "ہم ہر ممکنہ خطرے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایران یا اس کے اتحادی گروہ جیسے حزب اللہ کسی قسم کی جوابی کارروائی کرتے ہیں تو ہم سخت جواب دیں گے۔”
اسرائیل اور ایران: طویل دشمنی کی پس منظر
ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسرائیلی قیادت ہمیشہ اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔
اسی تناظر میں اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی حملوں کی بھرپور حمایت کی اور اسے اسرائیلی عوام کے لیے ’’تحفہ‘‘ قرار دیا۔
ایرانی موقف: ’’خطے کو جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے‘‘
دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کو ’’اشتعال انگیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:’’یہ سب کچھ اسرائیل کی خواہش پر کیا گیا ہے، جو خطے کو مکمل جنگ میں دھکیلنے کے لیے امریکہ کو استعمال کر رہا ہے۔ ایران اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔‘‘ایرانی صدر نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کا ’’مناسب وقت اور جگہ‘‘ پر جواب دیا جائے گا۔
عالمی برداری کی تقسیم
امریکہ اور اسرائیل کی قیادت جہاں اس حملے کو ایک تاریخی قدم قرار دے رہی ہے، وہیں چین، روس، یورپی یونین اور ترکی سمیت کئی ممالک نے اس اقدام کو ’’خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے تمام فریقین سے تحمل اور فوری مذاکرات کی اپیل کی ہے۔
جنگ یا سفارت؟
اس وقت دنیا کی نظریں ایران، امریکہ اور اسرائیل پر جمی ہوئی ہیں۔ کیا یہ حملے ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے یا عالمی سفارت کاری کوئی نیا راستہ نکال سکے گی؟ ایک بات طے ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک بار پھر ایک غیر یقینی اور نازک دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہر فیصلہ تاریخ کے دھارے کو بدل سکتا ہے۔