پاکستاناہم خبریں

محرم الحرام میں قیام امن کیلئے پاکستان علماء کونسل کا تاریخی اقدام: "پیغام پاکستان” ضابطہ اخلاق جاری

علماء نے زور دیا کہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عالم اسلام کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ:

(سید عاطف ندیم-پاکستان):

پاکستان علماء کونسل نے محرم الحرام کے مقدس مہینے میں امن و امان، بین المسالک ہم آہنگی، اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے علماء و مشائخ کی مشاورت سے "پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق” جاری کر دیا ہے، جو انتہا پسندی، شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ضابطہ اخلاق چیئرمین پاکستان علماء کونسل و صدر قومی یکجہتی کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی قیادت میں مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کے علماء و مشائخ کی موجودگی میں جاری کیا گیا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد محرم الحرام کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا اور مذہبی منافرت پر مبنی بیانیے کو روکنا ہے۔


اجلاس میں کن نے شرکت کی؟

لاہور میں منعقدہ اجلاس میں ملک کے ممتاز علماء و مشائخ اور دینی راہنماؤں نے شرکت کی، جن میں مولانا اسد عبید، علامہ سبطین اکبر، آغا شاہ حسین قزلباش، مولانا قاسم سانگی، مولانا طاہر عقیل اعوان، مولانا عزیز اکبر قاسمی، قاری مبشر رحیمی، مولانا انوار الحق مجاہد، مولانا امین الحق اشرفی، مفتی محمد عمر فاروق، اور مولانا عبد الغفار شاہ حجازی سمیت دیگر درجنوں شخصیات شامل تھیں۔


ضابطہ اخلاق کی اہم شقیں: امن کا جامع منشور

علماء کے متفقہ اعلامیے میں درج ذیل نکات خاص طور پر قابل توجہ ہیں:

  1. فرقہ وارانہ منافرت اور مسلح تصادم کو شریعت اور قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ قومی جرم ہے اور اس کی کوئی حمایت نہیں کی جائے گی۔

  2. انبیاء، صحابہ، اہلِ بیت، خلفاء راشدین اور ازواج مطہراتؓ کے احترام کو فرض قرار دیا گیا اور ان کی توہین کرنے والوں سے برأت کا اعلان کیا گیا۔

  3. کسی بھی فرد یا گروہ کو کافر قرار دینا ریاست کا اختیار قرار دیا گیا۔

  4. غیر مسلموں کو ان کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل آئینی اور شرعی حق دیا گیا۔

  5. خواتین کے حقوق، وراثت، اور تعلیم پر زور دیا گیا، شریعت کی روشنی میں ان کے احترام کی تجدید کی گئی۔

  6. مجالس، جلوس، کانفرنسز اور اجتماعات کو مکمل آزادی دی گئی، بشرطیکہ وہ قانون کے دائرے میں ہوں۔

  7. تمام مکاتب فکر کے ذاکرین، خطباء اور علماء کو امت کو جوڑنے اور اشتعال انگیزی سے اجتناب کی تلقین کی گئی۔

  8. ذرائع ابلاغ، بالخصوص سوشل میڈیا کو ضابطہ اخلاق کی مکمل پابندی کرنے کی ہدایت اور نفرت انگیز مواد کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی گئی۔


عالمی تناظر: ایران پر اسرائیل و امریکہ کے حملے کی شدید مذمت

اجلاس میں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ شرکاء نے کہا کہ:

"ایران ہمارا اسلامی برادر ملک ہے، اسرائیل کی جارحیت عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔”

علماء نے زور دیا کہ "گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو عالم اسلام کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ:

"ہم ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں، اور سعودی عرب، ترکی، روس کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہیں۔”


اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبات

پاکستان علماء کونسل نے اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم، روس، چین اور دیگر عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ:

  • اسرائیلی جارحیت کے خلاف واضح مؤقف اختیار کریں،

  • فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کریں،

  • اور خطے کو جنگ سے بچانے کے لیے فوری سفارتی مداخلت کریں۔


حکومت پاکستان سے مکمل تعاون کا اعلان

علماء نے حکومت اور ریاستی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ:

"ہم ملک میں امن و امان، مذہبی رواداری، اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔”

علماء نے اس بات پر زور دیا کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں "عزمِ استحکام پاکستان” پر متحد ہوں تاکہ قومی وحدت، داخلی سلامتی اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔


ملک گیر علما و مشائخ کنونشنز کا اعلان

پاکستان علماء کونسل نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر میں علماء و مشائخ کنونشنز منعقد کیے جائیں گے، جن میں:

  • پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق کی آگاہی دی جائے گی،

  • عوام کو اشتعال انگیز پروپیگنڈے سے بچنے کی ترغیب دی جائے گی،

  • اور حکومت سے امن و استحکام کی پالیسیوں میں مزید شراکت کا مطالبہ کیا جائے گا۔


نتیجہ: مذہبی ہم آہنگی کی طرف ایک متفقہ پیش قدمی

یہ کہنا بجا ہوگا کہ "پیغام پاکستان” ضابطہ اخلاق نہ صرف محرم الحرام کے دوران امن کے قیام کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، بلکہ یہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور اتحادِ امت کے لیے ایک ماڈل فریم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔

عوام، ریاست، مذہبی قیادت اور عالمی برادری — سب کو اب اس مشترکہ منشور کو سنجیدگی سے اپنانے اور عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button