
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیٹو کا یہ سربراہی اجلاس دنیا کی اس سب سے بڑی سکیورٹی تنظیم کو دفاعی اخراجات کے نئے وعدوں کے لحاظ سے آپس میں متحد بھی کر سکتا ہے یا پھر اس اتحاد کے 32 اراکین کے درمیان اختلافات کو وسعت بھی دے سکتا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اتحادی ممالک اپنی مجموعی ملکی پیداوار کا پانچ فیصد اپنی سلامتی پر خرچ کرنے کے ہدف کی توثیق کریں گے، تاکہ بیرونی حملوں کے خلاف دفاع کے لیے اتحاد کے منصوبوں پر پورا اترنے کے قابل ہو سکیں۔
توقع کی جا رہی تھی کہ دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیٹو سربراہی اجلاس میں پہلی بار شرکت اس حوالے سے موضوع بحث ہو گی کہ امریکہ نے اس سکیورٹی اتحاد میں شامل دیگر ممالک سے تاریخی فوجی اخراجات کا وعدہ کیسے حاصل کیا۔

لیکن اس کے بجائے اس وقت ٹرمپ کی جانب سے ایران میں جوہری افزودگی کی تین تنصیبات پر حملے کا معاملہ زیادہ توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس سے تہران کے جوہری عزائم کو نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ کا اچانک اعلان بھی اہم ہے کہ کہ اسرائیل اور ایران ”مجموعی اور مکمل جنگ بندی‘‘ پر پہنچ گئے ہیں۔
نیٹو کے ماضی کے سربراہ اجلاسوں میں تقریباﹰ پوری توجہ یوکرین جنگ پر مرکوز رہی ہے، جو اب اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ یہ اب بھی ایک اہم موضوع ہے۔
گزشتہ سال واشنگٹن میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد سے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، جب فوجی اتحاد کے اہم اعلامیے میں یوکرین کو طویل المدتی سکیورٹی امداد فراہم کرنے کا عہد اور نیٹو کی رکنیت کے لیے اس ملک کی حمایت کرنے کا عزم شامل تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا کہ وہ امریکی امن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جس سے یوکرین کی خودمختاری اور یورپی سلامتی کا تحفظ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک موجودہ صورتحال برقرار رہے گی روس کو فرانس اور جرمنی میں ایک غیر متزلزل عزم نظر آئے گا۔ فنانشل ٹائمز اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں انہوں نے مزید لکھا کہ جو چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے وہ آنے والی دہائیوں کے لیے یورپی استحکام کا تعین کرے گی۔ دونوں رہنماؤں نے لکھا، ”ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یوکرین اس جنگ سے خوشحال، مضبوط اور محفوظ بین نکلے اور روسی جارحیت کے خوف میں دوبارہ کبھی نہ رہے۔‘‘
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی بھی دی ہیگ پہنچے ہیں جہاں وہ متعدد رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ سربراہی اجلاس کے آغاز سے قبل زیلنسکی ہالینڈ کے وزیر اعظم ڈک شوف سے ملاقات کریں گے۔ بعد ازاں زیلنسکی ہالینڈ کی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کریں گے۔