مشرق وسطیٰ

غزہ میں ایک اور قتل عام: امدادی سامان کے منتظر نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج اور ڈرونز کا حملہ، 25 شہید، 150 سے زائد زخمی

"ٹینکوں اور ڈرونز نے ہمیں نشانہ بنایا، حتیٰ کہ اس وقت بھی گولیاں برس رہی تھیں جب لوگ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔"

غزہ (وائس آف جرمنی نیوز ڈیسک) — اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے غزہ میں امداد کے منتظر نہتے فلسطینیوں پر منگل کی علی الصبح کیے گئے حملے میں کم از کم 25 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ وسطی غزہ میں نصیرات کیمپ کے قریب صلاح الدین روڈ پر پیش آیا، جہاں سینکڑوں فلسطینی خوراک اور دیگر امدادی اشیاء کے ٹرکوں کے انتظار میں موجود تھے۔
عینی شاہدین، اسپتالوں اور غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی فورسز نے نہ صرف براہ راست گولیاں چلائیں بلکہ ڈرونز اور ٹینکوں سے بھی حملہ کیا۔ زخمیوں میں بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو امدادی سامان لینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے، جس کے باعث شہادتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
عینی شاہدین کا بیان: ’’یہ ایک قتل عام تھا‘‘
غزہ کے رہائشی احمد ہلاوہ نے اس حملے کو ’’قتل عام‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، "ٹینکوں اور ڈرونز نے ہمیں نشانہ بنایا، حتیٰ کہ اس وقت بھی گولیاں برس رہی تھیں جب لوگ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔”
ایک اور عینی شاہد، حسام ابو شہادہ نے بتایا کہ واقعے سے قبل ڈرونز فضا میں گردش کر رہے تھے۔ ’’جیسے ہی لوگ امدادی ٹرکوں کی طرف بڑھے، ٹینکوں اور ڈرونز سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہر طرف چیخ و پکار اور خونریزی تھی۔ میں نے کم از کم تین افراد کو زمین پر بے حس و حرکت پڑے دیکھا۔‘‘
اسپتالوں پر دباؤ، زخمیوں کی حالت نازک
عودہ ہسپتال کے مطابق اس واقعے میں 25 فلسطینی شہید اور 146 زخمی ہوئے، جن میں 62 کی حالت انتہائی نازک ہے۔ الاقصیٰ شہداء اسپتال نے مزید چھ افراد کی شہادت کی تصدیق کی۔ زیادہ تر زخمیوں کو وسطی غزہ کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں سہولیات کی شدید قلت ہے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اسرائیلی فورسز نے براہ راست گولیوں اور ٹینک شیلنگ سے شہریوں کو نشانہ بنایا۔‘‘ ان کے بقول یہ حملہ کسی بھی طور اتفاقی نہیں تھا بلکہ ایک "منظم کارروائی” تھی۔
یہ واقعہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” (Gaza Humanitarian Foundation – GHF) کے زیر انتظام امدادی تقسیم سے جڑا ہوا ہے، جو ایک امریکی حمایت یافتہ نجی ادارہ ہے۔ تاہم اس تنظیم پر متعدد بین الاقوامی اداروں نے سخت تنقید کی ہے۔
23 جون 2025 کو، 15 سے زائد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جی ایچ ایف سے غزہ میں اپنی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان میں انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس، فلسطینی سینٹر فار ہیومن رائٹس، امریکن سینٹر فار کانسٹی ٹیوشنل رائٹس اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس شامل ہیں۔
ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ جی ایچ ایف کا امدادی ماڈل نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ وہ بار بار خونریزی، جبری نقل مکانی اور حتیٰ کہ ممکنہ نسل کشی میں "غیر ارادی طور پر” معاون بن رہا ہے۔ ان الزامات کی روشنی میں اقوام متحدہ اور دیگر بڑی امدادی تنظیموں نے جی ایچ ایف سے تعاون ختم کر دیا ہے۔
450 سے زائد اموات جی ایچ ایف پوائنٹس پر
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جی ایچ ایف کے امدادی پوائنٹس کے قریب مئی کے آخر سے اب تک کم از کم 450 افراد ہلاک اور 3,500 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم جی ایچ ایف ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، حالانکہ عینی شاہدین اور ریسکیو سروسز اس مؤقف کی نفی کرتے ہیں۔
غزہ میں قحط کا خطرہ، انسانی بحران سنگین تر
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے دو ماہ سے زیادہ عرصے تک امدادی ترسیل کی مکمل بندش کے بعد قحط کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، لاکھوں فلسطینی بھوک اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نجی یا عسکری طرز کے امدادی ماڈلز کو مسترد کر کے روایتی انسانی امداد کا نظام بحال کرے، جو غیر جانبدار، محفوظ اور شفاف ہو۔
جنگ کا پس منظر: 56 ہزار فلسطینی شہید
یہ واقعہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران پیش آیا ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً 56,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بین الاقوامی ردعمل کا فقدان؟
اس خونریز واقعے کے بعد تاحال اسرائیلی فوج نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتیں اس معاملے پر خاموش دکھائی دیتی ہیں، جو انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرہ فلسطینیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔
کیا عالمی ضمیر جاگے گا؟
غزہ میں امدادی ٹرکوں کے منتظر نہتے فلسطینیوں پر حملہ، ایک اور دل دہلا دینے والی یاد دہانی ہے کہ اس تنازعے میں انسانی جان کی کوئی قیمت باقی نہیں رہی۔ نجی امدادی ماڈلز، جنگی حالات میں شہریوں کا استحصال، اور عالمی خاموشی ایک خطرناک امتزاج بن چکے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے فوری اور مؤثر اقدام نہ کیا تو انسانی بحران ایک ناقابلِ تلافی تباہی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button