بین الاقوامی

ایران نے یورینیم افزودگی کے خاص مقامات کو دوبارہ فعال کر دیا تو کیا ہو گا؟

امریکا اور اسرائیل کی فوجی مہم اگرچہ بظاہر کامیاب رہی، لیکن اس کے باوجود کوئی پائے دار توازن قائم نہ ہو سکا ... صدر ٹرمپ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تہران کے ساتھ مذاکرات کی بحالی نا گزیر ہو چکی ہے

واشنگٹن : ایجنسیاں
امریکی تجزیہ کار گریگ بریڈی کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر مسلسل بارہ روز تک ہونے والے فضائی حملے بعض پہلوؤں سے کامیاب رہے۔ یہ کارروائی 21 جون کو اس وقت نقطہ عروج کو پہنچی جب امریکا نے B-2 طیاروں اور کروز میزائلوں کے ذریعے حملہ کیا، جن میں سب سے بڑا بنکر شکن بم اور گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ یہ صلاحیت اسرائیل کے پاس نہیں ہے۔ ان حملوں سے نطنز، فردو اور اصفہان میں واقع ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔
بریڈی، جو "نیشنل انٹرسٹ سینٹر” کے سینئر رکن اور امریکی وزارت توانائی میں خدمات انجام دے چکے ہیں، نے جریدہ "دی نیشنل انٹرسٹ” میں شائع رپورٹ میں کہا کہ اگرچہ یہ فوجی مہم بظاہر کامیاب رہی، لیکن اس سے کوئی مستحکم توازن پیدا نہیں ہوا، اور صدر ٹرمپ اس پہلو کو تسلیم کرنے کے بجائے اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ایران سے دوبارہ مذاکرات کرنا نا گزیر ہو گا۔ 25 جون کو نیٹو سربراہی اجلاس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایران یورینیم کی افزودگی بحال کرے تو کیا امریکا حملہ کرے گا، تو ان کا دو ٹوک جواب تھا "یقیناً۔”
اس موقف کے پیچھے جزوی وجہ 24 جون کو امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کی لیک ہونے والی رپورٹ ہے، جس میں کہا گیا کہ اگرچہ ایرانی جوہری پروگرام کو چند ماہ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا۔ اس رپورٹ میں پرانے شکوک کا اعادہ کیا گیا کہ ایران کے جوہری مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس مائیک کوئگلی نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے برسوں سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ایران پر فضائی حملے مستقل اثر نہیں ڈال سکتے۔
ایران یورینیم کی افزودگی کے مراکز دوبارہ تعمیر کرنے پر مصر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ جنگ بندی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ جیسے ہی ایران افزودگی دوبارہ شروع کرے گا، اسرائیل یا امریکا کو دوبارہ حملے کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ایران اپنی موجودہ 60 فی صد افزودہ یورینیم کو مزید بڑھانے میں کامیاب ہو گیا، تو وہ اسے ہتھیاروں کے درجے تک لے جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ایرانی حکام سے اس ہفتے ملاقات ہو گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے پاس موجود طاقت کو کم سمجھ رہے ہیں۔
ایران کو شدید ضرب لگی ہے، لیکن وہ گرا نہیں۔ اس کے پاس اب بھی 60 فی صد افزودہ یورینیم موجود ہے، جو اس کے لیے سودے بازی کی طاقت ہے۔ اگر وہ کسی خفیہ مقام پر سینٹری فیوجز دوبارہ چلا لے تو بالآخر ایک جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔ موجودہ جنگ بندی تا حال برقرار ہے، مگر یہ توازن نا پائے دار ہے، اور ٹرمپ کو ایران کو ایسے کسی معاہدے پر آمادہ کرنا ہو گا جو یک طرفہ نہ ہو۔ ایران ممکنہ طور پر سخت نگرانی کے باوجود کچھ نہ کچھ افزودگی جاری رکھنے پر اصرار کرے گا، اور اگر امریکا اس کی مکمل نفی کرتا رہا تو مذاکرات ناکام ہو جائیں گے، اور ایک نئی فوجی کارروائی نا گزیر ہو جائے گی۔ اسرائیل نے بھی اب یہ طے کر لیا ہے کہ عسکری فیصلے واشنگٹن کے بجائے یروشلم میں ہوں گے، اگرچہ عملی مدد بدستور امریکا فراہم کرے گا۔
اگر ٹرمپ اس بحران سے کامیابی کے ساتھ نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ سخت شرائط کے ساتھ محدود افزودگی کو تسلیم کرنا واحد ممکنہ راستہ ہے۔ ایسا کوئی نیا معاہدہ جس میں 2015 کے معاہدے جیسے نکات شامل ہوں، مگر اس کے ساتھ دوبارہ حملے کی گنجائش بھی رکھی جائے، ایران کو شفافیت اور اعلیٰ سطح کے یورینیم سے دستبرداری پر مجبور کر سکتا ہے۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ امریکا کے لیے باعثِ افسوس ہو گا، مگر ایران اس یورینیم کو سودے بازی کا آلہ بنا کر سامنے لا سکتا ہے۔ اگر امریکا اس حد تک جانے سے قاصر ہو، تو عارضی طور پر کوئی علاقائی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔
فوری ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ایران کے پاس موجود اعلیٰ افزودہ یورینیم کو نکالا جائے اور مکمل شفافیت حاصل کی جائے۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو یا تو اپنی ضد چھوڑ کر کسی معاہدے کی طرف آنا ہو گا، یا پھر بالآخر عسکری تصادم کے راستے پر جانا پڑے گا۔ تازہ ترین سروے کے مطابق 56 فی صد امریکی ایران پر امریکی حملے کے مخالف ہیں، جبکہ ریپبلکنز میں بھی صرف 44 فی صد مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بریڈی کے مطابق، اگر امریکا بار بار ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے لیے حملے کرتا رہا تو یہ راستہ صدر ٹرمپ اور ریپبلکن جماعت، دونوں کے لیے 2026 اور 2028 کے انتخابات میں سخت مشکلات پیدا کرے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button