
جنگیں ذہنوں کو تسخیر نہیں کر سکتیں !……ناصف اعوان
ایران کو ایک مکھی ایسی جسامت والا ڈرون دے رہا ہے جو جاسوسی بھی کرے گا اور ہٹ بھی کیونکہ اس کے بغیر ایران محفوظ نہیں رہ سکتا
ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بند ہو چکی ہے اسرائیل نے ایران کو معمولی سمجھ کر اس پر حملہ کیا تھا مگر اسے بعد میں احساس ہوا کہ اس نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے ۔
جی ہاں ! اسرائیل کی اس قدر بربادی ہوئی کہ حیرت ہوتی ہے ایران نے واقعتاً اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔پہلی بار اسرائیلیوں نے دیکھا کہ ان کے شہروں پر اوپر سے آگ کے گولے برس رہے ہیں لہذا وہ زیر زمین چلے گئے اور لگے ایران سے التجائیں کرنے کہ جنگ بند کر دو مگر انہیں یہ خیال نہیں رہا کہ اسرائیل جب غزہ پر کارپٹڈ بمباری کر رہا تھا تو انہوں نے نیتن یاہو کی حکومت سے کیوں نہیں کہا کہ وہ بے بس بے قصور اور نہتے فلسطینیوں کا خون بہانہ چھوڑ دے ان کی گھروں کو تہس نہس نہ کرے ۔
دوسری طرف ایران کا بھی بہت نقصان ہوا ہے مگر دلیر ایرانیوں نے اسرائیلیوں کی طرح واویلا نہیں کیا وہ سب کچھ برداشت کرتے رہے اور سڑکوں پر آکر اسرائیل کی تباہی پر خوشی کا اظہار کرتے رہے اب بھی وہ خوشی سے جھوم رہے ہیں ۔صدر ٹرمپ نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کا بے حد و حساب نقصان ہوا ہے ۔
بہر حال سیانے تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل وِس گھول رہا کہ ایران مکمل طور سے تباہ کیوں نہیں ہوا رجیم چینج بھی نہیں ہو سکی لہذا وہ نئے سرے سےمنظم و مجتمع ہوکر اس پر حملہ آور ہو گا اسے یہ بھی دُکھ ہے کہ امریکی بموں نے ایران کا جوہری پروگرام برباد کیوں نہیں کیا کہ اس نے اپنا جوہری مواد محفوظ کر لیا اگر وہ ختم بھی کردیا جاتا تو اسرائیل کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اب جب اسرائیل اور امریکا نے براہ راست ایران پر حملہ کیا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ چین اور روس خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں کم از کم روس اسے ضرور ایٹمی قوت بنا کر رہے گا چین اسے جدید جنگی جہاز میزائل اور حفاظتی ہوائی دفاعی نظام بھی دے گا علاوہ ازیں وہ ایران کو ایک مکھی ایسی جسامت والا ڈرون دے رہا ہے جو جاسوسی بھی کرے گا اور ہٹ بھی کیونکہ اس کے بغیر ایران محفوظ نہیں رہ سکتا کہ امریکا اور اسرائیلی طیارے آئیں اور آکر اس پر بم و میزائل برسا کر سکون سے واپس چلے جائیں لہذا وہ یہ دیکھ کر ایران کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اس کے تنہا ہوجانے سے امریکا اور اسرائیل کی غنڈہ گردی کے جاری رہنے کا قوی امکان ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا مگر دونوں ملکوں اسرائیل اور امریکا کے عوام جنگوں سے تنگ آچکے ہیں وہ بالکل جنگ نہیں چاہتے ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ امن قائم کریں گے جنگیں روکیں گے مگر وہ اپنے وعدے پر عمل درآمد نہیں کر سکے ایسا لگتا ہے کہ وہ جنگوں کے دور کو واپس لانا چاہتے ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ارد گرد ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے ذاتی مفادات ہیں وہ سرمایہ داری نظام کو قائم دائم رکھنا چاہتے ہیں لہذا انہیں اپنے کاروبار اور منافعوں سے غرض ہے انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں مگر جب عوام سڑکوں پر آجائیں تو پھر منظر بدل جاتا ہے اُدھر برنی سینڈر نے بھی صدر ٹرمپ کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے انہوں نے ان کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں انسانی مسائل کو حل کرکے ایک خوشحال سماج کے حامی ہیں ۔ امریکا میں غربت جنم لے چکی ہے اس کی معیشت بتدریج کمزور ہو رہی ہے جسے جنگوں سے توانا نہیں بنایا جا سکتا اس کے لیے بہتر پالیسیاں اور دوسرے ملکوں سے بہتر تعلقات درکار ہیں۔
بہر کیف جنگوں سے معیشت مضبوط نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ اور کمزور ہوتی ہے نئے نئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے کئی برس چاہیے ہوتے ہیں لہذا اسرائیل کا اگر دوبارہ کوئی حملہ کرنے کا ارادہ ہے تو وہ سو بار سوچے کیونکہ اس کے سامنے بے شمار مسائل آن کھڑے ہوئے ہیں پھر وہ یہ مت سمجھے کہ اب اس کے جہازوں کو ایرانی فضاؤں میں اڑنے کی مکمل آزادی ہو گی اب اسے سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لہذا وہ امن کے قیام کے لئے آگے بڑھے غزہ پر حملے بند کرے (یہ جو نیا فارمولا کہ غزہ کا کنٹرول یو اے اور مصر سنبھالیں گے شاید ممکن نہیں ہو گا کیونکہ اس کا مطلب فلسطینیوں کا کوئی وطن نہیں ہو گا وہ اِدھر اُدھر کے ملکوں میں جا بسیں گےیا پھر ان ملکوں کے زیر اثر زندگی بسر کریں گے جبکہ اسرائیل جسے بڑی طاقتوں نے زبردستی اس خطے میں گھسایا وہ وہیں کا وہیں رہے گا چلئے دیکھتے ہیں فلسطینی کیا فیصلہ کرتے ہیں)
اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس پر حملے رکوا دئیے ہیں (دو ہفتوں کے بعد) مگر اسرائیل ایک سفاک ریاست ہے لہذا کیا پتا کب اس کی وحشت لوٹ آئے مگر وہ چند ماہ تک تو یہ سلسلہ جاری رکھ سکے گا اس کے بعد عین ممکن ہے ایران اس کے آس پاس کے ملکوں یا گروپوں کو جدید اسلحہ جن میں میزائل بھی ہوں دے ڈالے تو پھر اس کا کیا بنے گا کیونکہ اب ایران کو کوئی نہیں روک سکے گا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے لہذا اسرائیل خود کو طاقتور نہ سمجھے۔ دنیا بھلی سو بھلی ۔ایران ہر طرح کی جکڑ بندیوں کے باوجود خوفناک ترین میزائل بنا کر چلا سکتا ہے تو اس کے لئے ایٹم بم بنانا مشکل نہیں ہو گا یہاں ہم یہ عرض کر دیں کہ بھارت کی طرف سے یہ الزام لگانا کہ جنگ کے دوران اس کی پاکستان نے مدد کی سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے ا گر پاکستان مدد کرتا تو اسرائیل کی بارے میں دنیا کہتی کہ یہاں کبھی ایک ملک ہوتا تھا اس طرح کی افواہیں پھیلا کر دراصل وہ امریکا کو پاکستان کے خلاف کرنا چاہتا تھا اور ایران پر باقاعدہ مسلسل حملے کروانا چاہ رہا تھا مگر ناکام رہا اس طرح اسرائیل نے بھارت کو بھی اُکسانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ الجھے مگر اسے معلوم ہے کہ آگے سے چھتر پڑیں گے ۔ پاکستان بھارت سے کبھی لڑائی نہیں چاہتا اگر وہ (بھارت) اپنی طاقت دکھاتا ہے تو ظاہر ہے اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہر کیف ہم عالمی طاقتوں کی اس پہلو کی طرف توجہ مرکوز کروانا چاہتے ہیں کہ وہ انسانیت کی خاطر جوہری ہتھیاروں ‘ تباہ کن میزائلوں اور زمین کی گہرائی میں گُھسنے اور پّھٹنے والے بموں کو نہ آزمائیں انسانوں کو خوشحالی امن اور محبت کی وادی کی جانب لے جانے کے لئے جدو جہد اور سوچ بچار کریں کہ جنگیں کروڑوں انسانوں کی جان لے کر بھی مسائل حل نہیں کر سکیں اور نہ ہی ذہنوں کو تسخیر کر سکی ہیں !