یورپ

استنبول میں طنزیہ میگزین کے گستاخانہ کارٹون پر ہنگامے، پولیس کی کارروائی، ایڈیٹر سمیت تین افراد گرفتار

"کارٹونسٹ کا مقصد کسی مذہب یا عقیدے کی توہین ہرگز نہیں تھا، بلکہ وہ اسرائیل کے مظالم کے تحت مظلوم مسلمانوں کی تصویر کشی کر رہا تھا۔"

رپورٹ: عالمی امور ڈیسک، استنبول بیورو
ترتیب و تحقیق: سینئر ایڈیٹر، سیاسی و مذہبی امور

ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں پیر کے روز ایک طنزیہ میگزین "لی مین” (LeMan) کی جانب سے مبینہ گستاخانہ کارٹون کی اشاعت پر شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ مشتعل ہجوم اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ اس واقعے نے ترکیہ میں آزادی اظہار اور مذہبی حساسیت کے درمیان کشیدگی کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔


واقعے کا پس منظر

معروف طنزیہ جریدے "لی مین” نے 26 جون کو ایک ایسا کارٹون شائع کیا جو مبینہ طور پر اسلامی مذہبی اقدار کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کارٹون کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید غصے کا اظہار کیا گیا، اور پیر کو جب استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر سے اس کارٹون پر تحقیقات اور ایڈیٹر کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے، تو صورتحال مزید بگڑ گئی۔

پراسیکیوٹر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا:

"لی مین میگزین نے مذہبی اقدار کی بے حرمتی پر مبنی کارٹون شائع کیا، جس پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔"


عوامی ردعمل اور پولیس کارروائی

جیسے ہی گرفتاری کا حکم جاری ہوا، استنبول میں مشتعل شہریوں کی بڑی تعداد اس بار پر پہنچ گئی جہاں میگزین کا عملہ عموماً ملاقات کرتا ہے۔ وہاں مظاہرین نے زبردست نعرے بازی کی اور بعض نے توڑ پھوڑ کی کوشش کی، جس پر پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل برسائے۔

ترکیہ کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا:

"کارٹونسٹ، گرافک ڈیزائنر اور سٹاف کے ایک اور رکن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔"
مزید کہا گیا کہ "میگزین کے دیگر سینیئر اہلکاروں کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، اور تحقیقات جاری ہیں۔"


لی مین میگزین کی وضاحت

لی مین میگزین نے اپنے دفاع میں ایکس پر متعدد پوسٹس شیئر کرتے ہوئے الزام کو رد کیا۔
ایک بیان میں کہا گیا:

"کارٹونسٹ کا مقصد کسی مذہب یا عقیدے کی توہین ہرگز نہیں تھا، بلکہ وہ اسرائیل کے مظالم کے تحت مظلوم مسلمانوں کی تصویر کشی کر رہا تھا۔"
"کارٹون کو سیاق و سباق سے ہٹا کر دیکھا گیا ہے اور اس کا مطلب غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔"


حکومتی موقف اور عدالتی کارروائی

ترکیہ کے وزیر انصاف یلماز تونچ نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا:

"ہماری مذہبی اقدار کی توہین کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس معاملے کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔"

پراسیکیوٹرز نے میگزین کے دفتر کو سیل کر دیا ہے اور تمام اشاعتی سرگرمیوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت کو کارٹون کے مندرجات کا جائزہ لینے اور اس کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمے کے امکانات پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔


سماجی و سیاسی سطح پر تقسیم

یہ واقعہ ترکیہ میں اظہارِ رائے کی آزادی بمقابلہ مذہبی اقدار کے تناظر میں ایک نئی بحث چھیڑ رہا ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے آزادی اظہار پر حملہ قرار دے رہی ہیں، تو دوسری جانب مذہبی حلقے اور قدامت پسند عناصر اسے اسلامی عقائد کی توہین کا سنگین واقعہ قرار دے رہے ہیں۔

سیکولر طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے میگزین کے حق میں آواز اٹھائی ہے، جبکہ مذہبی طبقے کا مطالبہ ہے کہ "گستاخی کے مرتکب افراد کو سخت ترین سزا دی جائے۔”


بین الاقوامی ردعمل

تاحال کسی بین الاقوامی ادارے یا حکومت کی جانب سے واقعے پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ترکیہ میں متعین بعض سفارتی مشنز نے حالات پر نظر رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔


نتیجہ

ترکیہ جیسے کثیرالثقافتی اور مذہبی طور پر حساس معاشرے میں اس طرح کے واقعات نہ صرف داخلی سطح پر عوامی ردعمل کو جنم دیتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترکیہ کی ساکھ اور پالیسیوں پر سوالات اٹھا سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ ترکیہ کی عدالتیں اور حکومت اس معاملے سے کس طرح نمٹتی ہیں — کیا آزادی اظہار کو تحفظ دیا جائے گا یا مذہبی جذبات کی پاسداری کو فوقیت حاصل ہوگی؟


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button