
"جرمنی: 2024 میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ”
"ہم ایک مہربان اور کھلے دل کے حامل ملک ہیں، لیکن ہمارے وسائل بھی محدود ہیں۔ ہمیں ایک منصفانہ اور پائیدار یورپی حل کی ضرورت ہے، تاکہ ہر ملک اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔"
برلن، جواد احمد -جرمنی جرمنی میں 2024 کے دوران سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو یورپ میں جاری تنازعات، عالمی سطح پر مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیوں اور بعض خطوں میں سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ ہے۔ وفاقی دفتر برائے مہاجرین و پناہ گزین (BAMF) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار افراد نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کروائیں، جو 2023 کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔
پناہ کے سب سے زیادہ درخواست دہندگان کی قومیتیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ درخواستیں شام، افغانستان، ترکی، عراق اور ایریٹریا سے آنے والے افراد نے جمع کروائیں۔ ان ممالک میں جاری سیاسی بحران، جنگ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور معیشت کی ابتر صورتحال نے لاکھوں افراد کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
شام سے تقریباً 80,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔
افغانستان سے 60,000 سے زائد افراد نے پناہ کی درخواست دی۔
ترکی، جہاں حالیہ برسوں میں سیاسی پکڑ دھکڑ میں شدت آئی، سے بھی 40,000 سے زائد پناہ کے متلاشی جرمنی پہنچے۔
جرمن حکومت کی پالیسی ردعمل
جرمن چانسلر اولاف شولز کی حکومت نے اس اضافے پر ردعمل دیتے ہوئے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے مہاجرین کے بوجھ کو بانٹنے کی اپیل کی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ صرف جرمنی ہی اس بوجھ کو مستقل طور پر نہیں اٹھا سکتا۔
وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا:
"ہم ایک مہربان اور کھلے دل کے حامل ملک ہیں، لیکن ہمارے وسائل بھی محدود ہیں۔ ہمیں ایک منصفانہ اور پائیدار یورپی حل کی ضرورت ہے، تاکہ ہر ملک اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔”
پناہ گزینوں کے لیے موجودہ سہولیات پر دباؤ
پناہ کے متلاشی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ملک کے مختلف حصوں میں قائم عارضی رہائشی مراکز پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ کئی مقامات پر گنجائش سے زائد افراد کو رکھا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف سہولیات کی کمی کا سامنا ہے بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ تناؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
عوامی رائے اور سیاسی بحث
جرمنی میں پناہ گزینوں کے حوالے سے رائے عامہ منقسم ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق کے علمبردار اور کئی شہری گروہ ان افراد کے لیے مزید سہولیات اور مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، خصوصاً AfD (Alternative für Deutschland)، پناہ گزینوں کی آمد کو سیکیورٹی اور معاشی خطرہ قرار دے رہی ہیں۔
2024 کے آخری مہینوں میں کئی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جہاں مقامی باشندوں نے اپنی برادریوں میں نئے پناہ گزینوں کی آمد پر تشویش کا اظہار کیا۔
مستقبل کے چیلنجز
2025 میں بھی جرمنی کو مہاجرین سے متعلق متعدد چیلنجز کا سامنا ہوگا، جن میں رہائش، زبان کی تربیت، روزگار کے مواقع، اور سماجی انضمام جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مؤثر حکمت عملی اختیار کرے تو مہاجرین کو قومی ترقی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے فوری اور مربوط اقدامات درکار ہوں گے۔
نتیجہ:
2024 میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں اضافہ جرمنی کے لیے ایک بڑا انسانی، سیاسی اور معاشی چیلنج رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ یورپی سطح پر مشترکہ حکمت عملی، اندرونی اصلاحات اور مقامی آبادی کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرے۔