مشرق وسطیٰ

آپریشن سندور: انڈیا کی پاکستان کے خلاف حالیہ کارروائی میں چین اور ترکی کی حمایت کا دعویٰ ، بھارت

"ہم اب ماضی کی طرح صرف دفاعی رویہ نہیں اپنا سکتے۔ دشمن کے عزائم کو پیشگی روکنا ہوگا۔"

نئی دہلی (نمائندہ خصوصی): بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہول آر سنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے دوران بھارت کو نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور ترکی کی جانب سے ملنے والی حمایت اور شراکت کا بھی سامنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کی عسکری تنصیبات سے متعلق لائیو انٹیلیجنس معلومات چین کی جانب سے براہ راست پاکستان کو فراہم کی جا رہی تھیں۔

لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FICCI) کے زیراہتمام منعقدہ تقریب "نیو ایج ملٹری ٹیکنالوجیز” سے خطاب کر رہے تھے۔


چین، پاکستان اور ترکی: سہ فریقی دفاعی تعاون

جنرل سنگھ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون روایتی اسلحے کی فراہمی سے آگے بڑھ چکا ہے اور اب یہ تعاون لائیو وار زون میں ٹیکنالوجی کی آزمائش کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

"پاکستان کے 81 فیصد فوجی ہتھیار چینی ہیں۔ چین پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت کو ایک زندہ تجربہ گاہ (live laboratory) کی طرح استعمال کر رہا ہے، جہاں وہ اپنے جدید نگرانی کے نظام اور اسلحے کو حقیقی میدانِ جنگ میں آزما رہا ہے۔”

انہوں نے انکشاف کیا کہ ترکی نے بھی پاکستان کو اہم تکنیکی اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کی۔


"ہمارے پاس ایک سرحد تھی، لیکن تین دشمن تھے”

لیفٹیننٹ جنرل سنگھ نے کہا:

"ہم صرف پاکستان سے نہیں لڑ رہے تھے، ہمارے مخالفین تین تھے: پاکستان، چین اور ترکی۔ چین کی مدد صرف لاجسٹکس یا ہتھیاروں تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ پاکستان کو انڈیا کی فوجی نقل و حرکت سے متعلق لائیو معلومات بھی فراہم کر رہا تھا۔”

انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال بھارت کے لیے فضائی دفاعی نظام کی مضبوطی کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔


آپریشن سندور: بھارت کا منصوبہ بندی اور ہدف بندی کا دعویٰ

انہوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے حالیہ کارروائی "آپریشن سندور” کے دوران ڈیٹا، ٹیکنالوجی اور انسانی انٹیلیجنس کی بنیاد پر 21 اہداف کی نشاندہی کی، جن میں سے 9 کو منتخب کر کے ہدف بنایا گیا۔

"فیصلہ آخری لمحے میں کیا گیا۔ قیادت کی ہدایت بالکل واضح تھی کہ اب ہم صرف برداشت کرنے کی پالیسی پر نہیں چل سکتے۔ دشمن کو ٹھوس اور فیصلہ کن پیغام دینا ضروری ہے۔”

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انڈین فوج نے اس آپریشن سے کئی اسٹریٹجک اسباق سیکھے ہیں، جن میں سب سے اہم ڈیجیٹل جنگ کا ابھرتا ہوا کردار ہے۔


چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات

بین الاقوامی دفاعی تجزیاتی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق:

  • 2015 سے اب تک چین نے پاکستان کو 8.2 ارب ڈالر مالیت کے فوجی ساز و سامان فروخت کیے ہیں۔

  • 2020 سے 2024 کے دوران چین دنیا کا چوتھا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کنندہ رہا۔

  • اس عرصے میں چین کی 63 فیصد ہتھیاروں کی برآمدات صرف پاکستان کو ہوئیں، جو اسے چین کا سب سے بڑا گاہک بناتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف عسکری تجارت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ علاقائی فوجی توازن میں غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔


ترکی کی شراکت: تفصیلات سامنے نہیں آئیں

لیفٹیننٹ جنرل سنگھ نے ترکی کی جانب سے پاکستان کو فراہم کی گئی امداد کی نوعیت کی تفصیل نہیں دی، تاہم انہوں نے اس امداد کو "اہم” قرار دیا۔ ماہرین کے مطابق ترکی کی ڈرون ٹیکنالوجی، الیکٹرانک وارفیئر، اور انٹیلیجنس شیئرنگ کے شعبے میں پیشرفت کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ ترکی نے پاکستان کو جدید جنگی ٹولز کی فراہمی کی ہو۔


خطے میں نئے خطرات اور چیلنجز

سیکیورٹی ماہرین اس پیش رفت کو جنوبی ایشیا میں نئے فوجی چیلنجز اور اسٹریٹجک محاذ آرائی کے آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر چین، پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاعی تعاون مزید گہرا ہوتا ہے، تو یہ جنوبی ایشیا کی اسٹریٹجک تصویر کو بڑی حد تک بدل سکتا ہے۔


پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل نہیں

ابھی تک پاکستان یا چین کی حکومت کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل سنگھ کے ان بیانات پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ماضی میں پاکستان انڈین فوجی قیادت کے ان دعوؤں کو "من گھڑت اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتا رہا ہے۔


نتیجہ: دفاعی توازن کا نیا دور؟

لیفٹیننٹ جنرل سنگھ کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت خطے میں ملٹری ٹیکنالوجی کی دوڑ اور انٹیلیجنس وارفیئر کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ ان کے بقول:

"ہم اب ماضی کی طرح صرف دفاعی رویہ نہیں اپنا سکتے۔ دشمن کے عزائم کو پیشگی روکنا ہوگا۔”

اگر ان کا بیان درست ہے تو یہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے سرد جنگی ماحول کا آغاز ہو سکتا ہے، جہاں روایتی جنگ سے زیادہ ٹیکنالوجی، انٹیلیجنس اور سائبر مہارت فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button