اہم خبریںتازہ ترین

1974: قادیانیوں کے غیر مسلم قرار پانے کا فیصلہ — سیاست یا مذہب؟

“آیا ہم نے عقیدے کے تحفظ کے نام پر انسان کے بنیادی وقار کو مجروح تو نہیں کیا؟”

 وائس آف جرمنی (موسمی تاریخ)
پاکستانی معاشرے میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب 7 ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانی برادری کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ لیکن کیا یہ فیصلہ صرف سیاسی دباو یا وسیع مذہبی استدلال کے نتیجے میں تھا؟ ذیل میں مختصر ملکی سیاسی پس منظر، اسلامی اور آئینی بحث، اور تجزیاتی مؤقف پیش کیے جا رہے ہیں:


سیاسی اور سماجی پس منظر

  • 1953 کے لاہور فسادات کے بعد سے ہی قادیانیوں کے خلاف جذبات بڑھ رہے تھے۔ 1974 میں جب صوبہ پنجاب میں “نشیتر میڈیکل” اسکولی طلباء اور قادیانی نوجوانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، تو معاملہ ملک گیر ہو گیا

  • مذہبی جماعتوں مثلاً جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علمائے اسلام، اور مجلسِ احرار نے “تحریکِ ختمِ نبوت” کا آغاز کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو مسلم سے الگ کردیا جائے

  • اس دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیا، جہاں 130 میں سے 130 ارکان نے متفقہ طور پر اس اقدام کی حمایت کی ۔


آئینی اور مذہبی دلائل

  • دوسری آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 260(3) میں یہ شق شامل کی گئی کہ وہ شخص جو حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہ مانے، وہ مسلمان نہیں

  • مذہبی اسکالرز نے بھی اتفاق کیا کہ قادیانی عقائد، خاص طور پر نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کے دعوے اسلام کے بنیادی اصولوں کے متضاد ہیں ۔

  • قادیانی رہنماؤں کو پارلیمنٹ میں بل کی بحث کے دوران موقع دیا گیا — ان کے دو گروہوں (قادیانی لاہوری اور قادیانی قادیانی) کو استماع کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ۔


سیاسی مفادات یا مذہبی ضرورت؟

  • سیاسی مفاد کا دعویٰ:

    • کچھ نقاد کہتے ہیں کہ بھٹو نے اپنی اسلامی امیج بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا، خاص طور پر عرب ریاستوں مثلاً سعودی عرب کے دباؤ کے تحت — تاہم کچھ بیانات میں کہا گیا کہ شاہ فیصل کا دباؤ بہت حد تک مبالغہ تھا

    • ایک Reddit صارف نے لکھا:

      “In 1974 Zulfikar Ali Bhutto, sought to galvanize his political position by … bolstering his ‘Islamic’ credentials in the nascent Islamic Republic … in exchange for their support he acceded to their demands” ahmadiyya.org+2reddit.com+2thefridaytimes.com+2

  • مذہبی نقطہ نظر:

    • منتظم اہل علم کا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت نہ مانے تو اسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا، اور یہی اسلامی جامعہ کا جتھا وں شیوہ بھی ہے

    • پاکستانی فلسفی علامہ اقبال سمیت دیگر علما نے اس موقف کی حمایت کی کہ ختم نبوت اسلام کی بنیادی شرط ہے ۔


انسانی حقوق اور نتائج

  • انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ قادیانی قرار دینے سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے — مذہبی آزادی، مساوی شہری حیثیت، پاسپورٹ، ووٹ وغیرہ ۔

  • بعد میں 1984 کی آرڈیننس XX نے قادیانیوں کی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی، مثال کے طور پر: اذان، مسجد کا استعمال، مذہبی تقریب وغیرہ ۔


 خلاصہ

پہلوبیان
سیاسی دباؤیقینی حد تک بھٹو کے "اسلامک امیج” اور عرب ریاستوں کے دباؤ تھے
مذہبی استدلالختم نبوت کا عقیدہ اسلامی تشخص کا بنیادی حصہ
آئینی عملپارلیمنٹ میں متفق بحث کے بعد قانونی شق شامل
انسانی نتائجقادیانیوں کی مذہبی و شہری آزادیوں پر اثرات مرتب

نتیجہ

1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا قدم مقدس اسلامی اصولوں اور ماہرانہ مذہبی تشریح پر مبنی تھا، لیکن اس کے عملی نتائج سیاست، معاشرت، اور انسانی حقوق کے تقاضوں سے جڑے ہوئے تھے۔
یہ فیصلہ ایک مخلوط صورتِ حال ہے:

  • مذہبی اور قانونی زاویہ: اسلام کے بنیادی عقیدے (ختم نبوت) کے مطابق کیا گیا

  • سیاسی زاویہ: بھٹو اور مذہبی جماعتوں کا سیاسی اتحاد اور عوامی دباؤ

  • عالمی زاویہ: مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیموں اور عرب دنیا کا پسِ منظر

  • انسانی حقوق پہلو: پاکستانی آئین و عالمی معاہدات کے تحت حقوق متاثر ہوئے

آئندہ بحث کے لیے سوال باقی ہے کہ کیا مذہب میں فرق کو ریاستی سطح پر تبدیل کرنا موزوں ہے، یا آئینی راہ بھی کم تقسیم والی کوئی راہ تلاش کی جا سکتی تھی؟ یہ سوال آج بھی پاکستان کے آئینی و سماجی مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے۔?

آپ کا سوال بالکل برمحل اور گہرائی لیے ہوئے ہے، کیونکہ ریاست و مذہب کے تعلق اور آئینی تفریق پر مبنی فیصلوں کے طویل المدتی اثرات صرف ایک وقت یا گروہ تک محدود نہیں رہتے—بلکہ وہ پورے معاشرے کی ساخت، قانون، اور اجتماعی شعور کو متاثر کرتے ہیں۔

آئیں، اس مسئلے کو چند اہم نکات میں تجزیاتی انداز میں دیکھتے ہیں:


1. مذہب کو آئینی شناخت بنانا – فوائد اور خطرات

فوائد (جو اس وقت پیش کیے گئے):

  • اکثریتی عوام کے مذہبی جذبات کی عکاسی

  • اسلامی نظریاتی ریاست کی سمت میں قدم

  • مذہبی ہم آہنگی قائم رکھنے کا دعویٰ (متنازعہ)

خطرات:

  • اقلیتوں کی شہری حیثیت پر سوال

  • مذہبی تعبیرات کا ریاستی استعمال – جو ہر دور میں بدل سکتی ہیں

  • تقسیم اور تشدد کے نئے دروازے کھلنے کا خدشہ

  • “کون مسلمان ہے؟” کا فیصلہ عوام سے اٹھا کر اداروں کو دینا


2. کیا کوئی اور متبادل راستہ ممکن تھا؟

جی ہاں، کچھ قانونی ماہرین اور دانشوران کی رائے ہے کہ ریاست درج ذیل نرم لیکن واضح اقدامات سے بھی عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ کر سکتی تھی:

متبادل اقداموضاحت
قانونی وضاحتقادیانی عقائد کو "مسلمانوں کے عمومی عقائد سے مختلف” قرار دیا جاتا، بغیر "کافر” قرار دینے کے
مذہبی فتوے کی سطح تک محدود کرناریاستی سطح پر اعلان نہ کیا جاتا، صرف مذہبی ادارے فتوے دیتے، جیسا کہ دیگر فقہی اختلافات میں ہوتا ہے
شہری حقوق کی ضمانت کے ساتھ الگ شناختقادیانیوں کو ایک "مذہبی گروہ” تسلیم کر کے، ان کے تمام بنیادی انسانی و شہری حقوق برقرار رکھے جاتے

3. کیا اس بحث کی آج بھی اہمیت ہے؟

یقیناً۔ آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے:

  • مذہبی انتہا پسندی

  • فرقہ واریت

  • اقلیتوں کے حقوق کی پامالی

  • ریاستی اداروں پر اعتماد کا بحران

ان میں ایک بڑی جڑ مذہب کا آئینی سیاست میں کردار ہے۔

جب مذہب کو ریاستی طاقت سے جوڑا جاتا ہے، تو “دوسرے” کو خارج کرنے کا راستہ آسان ہو جاتا ہے — پہلے قادیانی، پھر شیعہ، پھر بریلوی، پھر کوئی اور۔


4. آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہو سکتا ہے؟

  1. بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا — دلائل، فتوے، اور علمی بحث کو ریاستی مداخلت سے آزاد کرنا

  2. قانون اور مذہب کو الگ کرنے پر تدریجی مکالمہ — ایک مکمل سیکولر ریاست نہ سہی، لیکن قانون میں امتیازی شقیں ختم کرنا

  3. اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آزاد کمیشنز اور عدالتی نگرانی


نتیجہ: ریاست کو عقیدے کا منصف بنانا ایک خطرناک راستہ ہے

1974 کا فیصلہ یقیناً اس وقت کے جذبات، حالات اور فکری ماحول کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد جو تشدد، تعصب، اور ریاستی طاقت کا مذہبی اقلیتوں پر استعمال ہوا — وہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ:

“آیا ہم نے عقیدے کے تحفظ کے نام پر انسان کے بنیادی وقار کو مجروح تو نہیں کیا؟”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button