بین الاقوامی

عاشورہ کے موقع پر کربلا میں بیسیوں ہزار شیعہ زائرین جمع

دس محرم کے دن انہی المناک واقعات کی یاد میں کربلا میں موجود ہونا اور وہاں عزا داری کرنا دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی اہم مذہبی موقع ہوتا ہے

مقبول ملک ، اے پی کے ساتھ

عراقی شہر کربلا میں یوم عاشور کے موقع پر آج اتوار چھ جولائی کے روز دنیا بھر سے آنے والے بیسیوں ہزار شیعہ زائرین جمع ہیں۔ یوم عاشور یا محرم کے اسلامی مہینے کی دس تاریخ کو ہر سال سانحہ کربلا کی یاد منائی جاتی ہے۔

کربلا میں ان زائرین کی آمد اور موجودگی کا مقصد آج سے 1345 برس قبل پیش آنے والے ان واقعات کی یاد تازہ کرنا ہے، جو اسی شہر میں 680ء میں ہونے والی جنگ کے دوران پیش آئے تھے۔ کربلا کی جنگ میں پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین اور ان کے بیسیوں ساتھیوں نے اپنی جانیں دے دی تھیں۔

دس محرم کے دن انہی المناک واقعات کی یاد میں کربلا میں موجود ہونا اور وہاں عزا داری کرنا دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی اہم مذہبی موقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ امام حسین کے چہلم کے موقع پر بھی دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں شیعہ زائرین عزا داری اور زیارتوں کے لیے کربلا کا رخ کرتے ہیں، جسے اصطلاحاﹰ اربعین کہا جاتا ہے۔

کربلا میں  امام حسین اور ان کے بھائی عباس علمدار کے روضوں کے درمیان شیعہ زائرین کا جم غفیر
کربلا میں امام حسین اور ان کے بھائی عباس علمدار کے روضوں کے درمیان شیعہ زائرین کا جم غفیرتصویر: Anmar Khalil/AP/picture alliance

جنگ کربلا کی تاریخی اور مذہبی اہمیت

ساتویں صدی عیسوی کی نویں دہائی کے آغاز پر پیش آنے والے واقعہ کربلا کی اسلام میں اور خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے لیے اہمیت انتہائی کلیدی نوعیت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین نے تب اپنے خاندان کے تقریباﹰ سبھی مرد ارکان اور ساتھیوں کے ہمراہ اس لیے لڑ کر اپنی جان دے دینے کو ترجیح دی تھی کہ وہ بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اس واقعے کے بعد شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین مذہبی خلیج بھی بہت وسیع ہو گئی تھی۔ خاص طور پر شیعہ عقیدے کے پیروکاروں کے لیے کربلا کا سانحہ جبر اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی سب سے بڑی علامت بن گیا اور اس مزاحمت کی یہ استعاراتی حیثیت آج تک مسلمہ ہے۔

کربلا میں عباس علمدار کا روضہ اور اس کے باہر تک جمع شیعہ زائرین، رات کے وقت لی گئی ایک تصویر
کربلا میں عباس علمدار کا روضہ اور اس کے باہر تک جمع شیعہ زائرین، رات کے وقت لی گئی ایک تصویرتصویر: Hadi Mizban/AP Photo/picture alliance

غیر معمولی علاقائی کشیدگی

بغداد سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کربلا میں جمع ہزارہا شیعہ زائرین اس سال ایک ایسے وقت پر شہدائے کربلا کی یاد منا رہے ہیں، جب مشرق وسطیٰ کے پورے خطے کو غیر معمولی حد تک کشیدگی کا سامنا ہے۔

اس کشیدگی کا ایک اہم پہلو غزہ کی تقریباﹰ 21 ماہ سے جاری جنگ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی حالیہ ایران اسرائیل جنگ اور وہ ڈرامائی واقعات بھی قابل ذکر ہیں، جن میں گزشتہ برس دسمبر میں شام میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ اور پھر حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی ہلاکت سب سے نمایاں ہیں۔

شام کی علوی شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے بشار الاسد شیعہ اکثریتی آبادی والے ملک ایران کے قریبی حلیف تھے جبکہ حسن نصراللہ لبنان میں ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے طویل عرصے سے رہنما چلے آ رہے تھے، جو حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ میں بیروت پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔

رمضان کے مہینے میں امام عباس کے روضے پر جمع شیعہ زائرین کا ہجوم
رمضان کے مہینے میں امام عباس کے روضے پر جمع شیعہ زائرین کا ہجومتصویر: Hadi Mizban/AP/picture alliance

کربلا میں زائرین کا استقبال

نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ آج یوم عاشور کے موقع پر کربلا کی گلیوں میں بے پناہ ہجوم ہے اور زائرین کے لیے تقریباﹰ ہر گلی اور سڑک پر دونوں طرف اشیائے خوراک اور پانی کی احتراماﹰ مفت فراہمی کے سٹال لگائے گئے ہیں۔

اس وقت کربلا میں موجود شیعہ زائرین کا تعلق یوں تو کئی مختلف ممالک سے ہے تاہم ان میں زیادہ تعداد عراق ہی کے دیگر صوبوں سے آنے والے ملکی باشندوں کے ساتھ ساتھ ایران، خلیجی عرب ریاستوں، لبنان اور پاکستان سے جانے والے زائرین کی ہے۔

عاشورہ کے موقع پر کربلا میں شیعہ زائرین، جن میں مرد، عورتیں اور بچے سبھی شامل ہوتے ہیں، سیاہ لباس پہنے امام حسین اور ان کے بھائی عباس علمدار کے روضوں کے گرد جمع ہو کر شہدائے کربلا کی یاد میں عزا داری کی شیعہ مذہبی روایات پر عمل کرتے ہیں۔

کربلا میں اربعین کے موقع پر شام کے وقت لی گئی ایک تصویر
کربلا میں اربعین کے موقع پر شام کے وقت لی گئی ایک تصویرتصویر: Karar Essa/AA/picture alliance

اس دوران زیارتوں کے علاوہ دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں، ماتم بھی کیا جاتا ہے اور مرثیے اور نوحے بھی پڑھے جاتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button