انٹرٹینمینٹ

پاکستان: خواتین کی سوشل میڈیا پر شہرت — اصل قیمت کہیں زیادہ

"شہرت کے ساتھ آزادی نہیں، بلکہ خوف، تنقید، بلیک میلنگ، اور مسلسل نگرانی کا بوجھ بڑھتا ہے۔"

(خصوصی رپورٹ)
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک پر خواتین کی تعداد اور ان کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لاکھوں فالوورز، برانڈز کے ساتھ اشتراک، اور دنوں میں "وائرل” ہو جانا — یہ سب سننے میں بہت پرکشش لگتا ہے، لیکن اس شہرت کی اصل قیمت کئی حوالوں سے بہت بھاری ہے، جس کا اندازہ اکثر دیر سے ہوتا ہے۔


عروج کی راہ میں پیچیدگیاں: شہرت ایک تیزاب؟

سوشل میڈیا پر موجود معروف خواتین انفلوئنسرز سے جب بات کی گئی تو کئی نے اعتراف کیا کہ:

"شہرت کے ساتھ آزادی نہیں، بلکہ خوف، تنقید، بلیک میلنگ، اور مسلسل نگرانی کا بوجھ بڑھتا ہے۔”

ایک معروف ٹک ٹاکر نے بتایا:

"ایک ویڈیو پر لاکھوں ویوز آتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہزاروں فحش کمنٹس، فیک اکاؤنٹس، اور واٹس ایپ پر غیر اخلاقی پیغامات بھی ملتے ہیں۔”


آن لائن شہرت بمقابلہ معاشرتی بدنامی

پاکستانی معاشرہ اب بھی روایتی اقدار پر مبنی ہے، جہاں خواتین کی سوشل میڈیا پر "نمائش” کو اکثریت شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نتیجتاً، شہرت پانے والی خواتین کو اپنے گھر، برادری اور خاندان میں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بہت سی خواتین کو تعلیم، نوکری، یا رشتے کے معاملات میں رکاوٹوں کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ ان کا "آن لائن امیج” ان کے "آف لائن کردار” پر غالب آ چکا تھا۔


سائبر ہراسانی اور بلیک میلنگ — شہرت کا سایہ دار چہرہ

سائبر کرائم ونگ کے مطابق:

  • ہر سال سوشل میڈیا پر خواتین کی تصاویر و ویڈیوز کے غلط استعمال سے متعلق ہزاروں شکایات موصول ہوتی ہیں۔

  • اکثر خواتین انفلوئنسرز کو فیک ویڈیوز، ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور بلیک میلنگ کا سامنا رہتا ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق:

"سوشل میڈیا پر مشہور خواتین آسان ہدف ہوتی ہیں، کیونکہ ان کی موجودگی عوامی ہوتی ہے اور ان کی نجی زندگی جلد نشانے پر آ جاتی ہے۔”


برانڈز، مارکیٹنگ اور فائدے — لیکن کس قیمت پر؟

کئی خواتین انفلوئنسرز برانڈز کے لیے پروموشن کرتی ہیں اور اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ لیکن:

  • ہر معاہدے کے ساتھ اعتماد کا مسئلہ بڑھتا ہے

  • کئی مرتبہ غیراخلاقی پیشکشیں بھی موصول ہوتی ہیں

  • ظاہری شخصیت کو مارکیٹ کرنے کا دباؤ نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے

ایک معروف انسٹاگرام ماڈل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:

"کئی بار برانڈز صرف میری شکل یا جسم کو ‘پروڈکٹ’ بنا کر دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ میری رائے، اقدار یا تعلیم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔”


نفسیاتی اثرات: تنہائی، اضطراب، اور خود اعتمادی کی کمی

شہرت کے ساتھ وابستہ مسلسل دباؤ، تنقید، اور ‘پرفیکٹ لائف’ دکھانے کی مجبوری سے خواتین میں:

  • ڈپریشن، تنہائی، نیند کی کمی

  • خود اعتمادی میں کمی، خودکشی کے خیالات

  • جسمانی تاثر (Body Image Issues)
    جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔


سوشل میڈیا پر خواتین کی کامیابی — ایک پہلو امید کا بھی

منفی پہلوؤں کے باوجود سوشل میڈیا نے ہزاروں خواتین کو آواز، روزگار، پہچان اور اظہارِ خیال کی آزادی دی ہے۔ کئی خواتین نے:

  • آن لائن بزنسز شروع کیے

  • تعلیم و تربیت کے چینلز بنائے

  • سماجی مسائل پر شعور اجاگر کیا

  • انٹرنیشنل سطح پر پہچان حاصل کی

ایک باحجاب یوٹیوبر نے بتایا:

"میں نے اپنے گھر کے کچن سے ویڈیوز بنانا شروع کیں۔ آج میری اپنی کوکنگ کمپنی ہے اور میں کئی خواتین کو روزگار دے رہی ہوں۔”


سوشل میڈیا پر شہرت ایک نعمت یا آزمائش؟

پاکستان میں خواتین کے لیے سوشل میڈیا پر شہرت ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ جہاں ایک طرف آزادی، خود مختاری اور پہچان کا موقع ہے، وہیں دوسری جانب معاشرتی، نفسیاتی، اور اخلاقی قیمت بہت بھاری ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ:

  • خواتین کو ڈیجیٹل تحفظ، رہنمائی، اور قانونی مدد فراہم کی جائے

  • سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سخت قوانین اور AI پر مبنی فلٹرز نافذ کریں

  • معاشرتی رویے بدلے جائیں تاکہ خواتین کے لیے سوشل میڈیا ‘موقع’ بنے، ‘خطرہ’ نہیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button